فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ
پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچا کردیا اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر کے پتھر برسائے۔
آج کے ایٹم بم اس وقت کے پتھروں کی بارش سورج کے نکلنے کے وقت اللہ کا عذاب ان پر آ گیا ۔ ان کی بستی سدوم نامی تہ و بالا ہو گئی ۔ «وَالْمُؤْتَفِکَۃَ أَہْوَیٰ فَغَشَّاہَا مَا غَشَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:53-54) ’ عذاب نے اوپر تلے سے ڈھانک لیا ‘ ۔ آسمان سے پکی مٹی کے پتھر ان پر برسنے لگے ۔ جو سخت ، وزنی اور بہت بڑے بڑے تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { «سِجِّینٍ سِجِّیلٍ» دونوں ایک ہی ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4684) «مَّنضُودٍ» سے مراد پے در پے تہ بہ تہ ایک کے بعد ایک کے ہیں ۔ ان پتھروں پر قدرتی طور پر ان لوگوں کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ جس کے نام کا پتھر تھا اسی پر گرتا تھا ۔ وہ مثل طوق کے تھے جو سرخی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ یہ ان شہریوں پر بھی برسے اور یہاں کے جو لوگ اور گاؤں گوٹھ میں تھے ان پر بھی وہیں گرے ۔ ان میں سے جو جہاں تھا وہیں پتھر سے ہلاک کیا گیا ۔ کوئی کھڑا ہوا ، کسی جگہ کسی سے باتیں کر رہا ہے وہیں پتھر آسمان سے آیا اور اسے ہلاک کر گیا ۔ غرض ان میں سے ایک بھی نہ بچا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے ان سب کو جمع کر کے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھا لیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں ۔ آپ علیہ السلام اپنے داہنے پر کے کنارے پر ان کی بستی کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ پھر انہیں زمین پر الٹ دیا ۔ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دیا اور سب ایک ساتھ غارت ہو گئے اکے دکے جو رہ گئے تھے ان کے بھیجے آسمانی پتھروں نے پھوڑ دئیے اور محض بے نام و نشان کر دیئے گئے ۔ مذکور ہے کہ ان کی چار بستیاں تھیں ۔ ہربستی میں ایک لاکھ آدمیوں کی آبادی تھی ۔ ایک روایت میں ہے تین بستیاں تھیں ۔ بڑی بستی کا نام سدوم تھا ۔ یہاں کبھی کبھی خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام بھی آ کر وعظ نصیحت فرما جایا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ چیزیں کچھ ان سے دور نہ تھیں ‘ ۔ سنن کی حدیث میں ہے { کسی اگر تم لواطت کرتا ہوا پاؤ تو اوپر والے نیچے والے دونوں کو قتل کر دو } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4462،قال الشیخ الألبانی:صحیح)