تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم، پس صبر کر، بے شک اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔
یہ تاریخ ماضی وحی کے ذریعے بیان کی گئی ہے ’ قصہ نوح اور اسی قسم کے گزشتہ واقعات وہ ہیں جو تیرے سامنے نہیں ہوئے لیکن بذریعہ وحی کے ہم تجھے ان کی خبر کر ہے ہیں اور تو لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت اس طرح کھول رہا ہے کہ گویا ان کے ہونے کے وقت تو وہیں موجود تھا ۔ اس سے پہلے نہ تو تجھے ہی ان کی کوئی خبر تھی نہ تیری قوم میں سے کوئی اور ان کا علم رکھتا تھا ، کہ کسی کو بھی گمان ہو کہ شاید تو نے اس سے سیکھ لیے ہوں پاس صاف بات ہے کہ یہ اللہ کی وحی سے تجھے معلوم ہوئے اور ٹھیک اسی طرح جس طرح اگلی کتابوں میں موجود ہیں ۔ پس اب تجھے ان کے ستانے جھٹلانے پر صبر و برداشت کرنا چاہیئے ‘ ۔ «وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ» ۱؎ (37-الصافات:171-173) ’ ہم تیری مدد پر ہیں تجھے اور تیرے تابعداروں کو ان پر غلبہ دیں گے ، انجام کے لحاظ سے تم ہی غالب رہو گے ، یہی طریقہ اور پیغمبروں کا بھی رہا ‘ ۔