وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ
اور نوح نے اپنے رب کو پکارا، پس کہا اے میرے رب! بے شک میرا بیٹا میرے گھر والوں سے ہے اور بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی دعا اور جواب یاد رہے کہ یہ دعا نوح علیہ السلام کی محض اس غرض سے تھی کہ آپ علیہ السلام کو صحیح طور پر اپنے ڈوبے ہوئے لڑکے کا حال معلوم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ ” پروردگار یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا لڑکا میرے اہل میں سے تھا ۔ اور میرے اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ تھا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ تیرا وعدہ غلط ہو ۔ پھر یہ میرا بچہ کفار کے ساتھ کیسے غرق کر دیا گیا ؟ “ جواب ملا کہ ’ تیری جس اہل کو نجات دینے کا میرا وعدہ تھا ان میں تیرا یہ بچہ داخل نہ تھا ، میرا یہ وعدہ ایمانداروں کی نجات کا تھا ۔ میں کہہ چکا تھا کہ «وَأَہْلَکَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ» ۱؎ (11-ھود:40) یعنی ’ تیرے اہل کو بھی تو کشتی میں چڑھا لے مگر جس پر میری بات بڑھ چکی ہے ، وہ بوجہ اپنے کفر کے انہیں میں سے تھا جو میرے سابق علم میں کفر والے اور ڈوبنے والے مقرر ہو چکے تھے ‘ ‘ ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جن بعض لوگوں نے کہا ہے یہ دراصل نوح علیہ السلام کا لڑکا تھا ہی نہیں کیونکہ آپ علیہ السلام کے بطن سے نہ تھا ۔ بلکہ بدکاری سے تھا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ آپ علیہ السلام کی بیوی کا اگلے گھر کا لڑکا تھا ۔ یہ دونوں قول غلط ہیں بہت سے بزرگوں نے صاف لفظوں میں اسے غلط کہا ہے بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے سلف سے منقول ہے کہ کسی نبی علیہ السلام کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ۔ پس یہاں اس فرمان سے کہ وہ تیرے اہل میں سے نہیں یہی مطلب ہے کہ ’ تیرے جس اہل کی نجات کا میرا وعدہ ہے یہ ان میں سے نہیں ‘ ۔ یہی بات سچ ہے اور یہی قول اصلی ہے ۔ اس کے سوا اور طرف جانا محض غلطی ہے اور ظاہر خطا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت اس بات کو قبول نہیں کر سکتی کہ اپنے کسی نبی علیہ السلام کے گھر میں زانیہ عورت دے ۔ خیال فرمائیے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جنہوں نے بہتان بازی کی تھی ان پر اللہ تعالیٰ کس قدر غضبناک ہوا اس لڑکے کے اہل میں سے نکل جانے کی وجہ خود قرآن نے بیان فرما دی ہے کہ ’ اس کے عمل نیک نہ تھے ‘ ۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ایک قرأت «إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ» ہے مسند کی حدیث میں ہے اسماء بنت یزید فرماتی ہیں { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «إِنَّہُ عَمِلَ غَیْرَ صَالِحٍ» پڑھتے سنا ہے اور آیت «یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا» ۱؎ ۱؎ (39-الزمر:53) پڑھتے سنا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:359/6:صحیح بالشواہد) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا کہ «فَخَانَتَاہُمَا» ۱؎ (66-التحریم:10) کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا ” اس سے مراد زنا نہیں بلکہ نوح علیہ السلام کی بیوی کی خیانت تو یہ تھی کہ لوگوں سے کہتی تھی یہ مجنون ہے ۔ اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی خیانت یہ تھی کہ جو مہمان آپ علیہ السلام کے ہاں آتے اپنی قوم کو خبر کر دیتی “ ۔ پھر آپ نے یہ آیت «إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ» پڑھی ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب نوح علیہ السلام کے لڑکے کے بارے میں سوال ہوا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا ” اللہ سچا ہے اس نے اسے نوح علیہ السلام کا لڑکا فرما دیا ہے ۔ پس وہ یقیناً نوح علیہ السلام کا ثابت النسب لڑکا ہی تھا “ ۔ دیکھو اللہ فرماتا ہے کسی نبی کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ، اور یہ بھی یاد رہے کہ بعض علماء کا قول ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی زناکاری نہیں کی ایسا ہی مجاہدرحمہ اللہ سے مروی ہے ۔ اور یہی ابن جریررحمہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔ اور فی الواقع ٹھیک اور صحیح بات بھی یہی ہے ۔