وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لاچکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔
قوم نوح کا مانگا ہوا عذاب اسے ملا قوم نوح نے جب عذابوں کی مانگ جلدی مچائی تو آپ نے اللہ سے دعا کی «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا» ۱؎ (71-نوح:26) ’ الٰہی زمین پر کسی کافر کو رہتا بستا نہ چھوڑ ‘ ۔ «فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّی مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ» ۱؎ (54-القمر:10) ’ پرودرگار میں عاجز آ گیا ہوں ، تو میری مدد کر ‘ ۔ اسی وقت وحی آئی کہ ’ جو ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اور کوئی اب ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خاص خیال کر ۔ ہمارے دیکھتے ہی ہماری تعلیم کے مطابق ایک کشتی تیار کر اور اب ظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر ، ہم ان کا ڈبو دینا مقرر کر چکے ہیں ‘ ۔ بعض سلف کہتے ہیں حکم ہوا کہ لکڑیاں کاٹ کر سکھا کر تختے بنا لو ۔ اس میں ایک سو سال گزر گئے پھر مکمل تیاری میں سو سال اور نکل گئے ایک قول ہے چالیس سال لگے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام محمد بن اسحٰق رحمہ اللہ توراۃ سے نقل کرتے ہیں کہ ساگ کی لکڑی کی یہ کشتی تیار ہوئی اس کا طول اسی [ ۸۰ ] ہاتھ تھا اور عرض پچاس [ ۵۰ ] ہاتھ کا تھا ۔ اندر باہر سے روغن کیا گیا تھا پانی کاٹنے کے پر پرزے بھی تھے ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ لمبائی تین سو ہاتھ کی تھی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ ” طول بارہ سو ہاتھ کا تھا اور چوڑائی چھ سو ہاتھ کی تھی “ ۔ کہا گیا ہے کہ طول دوہزار ہاتھ اور چوڑائی ایک سو ہاتھ کی تھی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس کی اندرونی اونچائی تیس ہاتھ کی تھی اس میں تین درجے تھے ہر درجہ دس ہاتھ اونچا تھا ۔ سب سے نیچے کے حصے میں چوپائے اور جنگلی جانور تھے ۔ درمیان کے حصے میں انسان تھے اور اوپر کے حصے میں پرندے تھے ۔ ان میں چھوٹا دروازہ تھا ، اوپر سے بالکل بند تھی ۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے ایک غریب اثر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا ہے کہ ” حواریوں نے عیسیٰ بن مریم سے درخواست کی کہ اگر آپ بحکم الٰہی کسی ایسے مردہ کو جلاتے جس نے کشتی نوح علیہ السلام دیکھی ہو تو ہمیں اسے معلومات ہوتیں آپ علیہ السلام انہیں لے کر ایک ٹیلے پر پہنچ کر وہاں کی مٹی اٹھائی اور فرمایا ” جانتے ہو یہ کون ہے ؟ “ انہوں نے کہا کہ ” اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام کو ہی علم ہے “ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ پنڈلی ہے حام بن نوح علیہ السلام کی “ ، پھر آپ علیہ السلام نے ایک لکڑی اس ٹیلے پر مار کر فرمایا ” اللہ کے حکم سے اٹھ کھڑا ہو “ ۔ اسی وقت ایک بوڑھا سا آدمی اپنے سر سے مٹی جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا ” کیا تو بڑھاپے میں مرا تھا ؟ “ اس نے کہا نہیں مرا تو تھا جوانی میں لیکن اب دل پر دہشت بیٹھی کہ قیامت قائم ہوگئی اس دہشت نے بوڑھا کر دیا ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” اچھا نوح علیہ السلام کی کشتی کی بابت اپنی معلومات بیان کرو ۔ اس نے کہا وہ بارہ سو ہاتھ لمبی اور چھ سو ہاتھ چوڑی تھی تین درجوں کی تھی ۔ ایک میں جانور اور چوپائے تھے ، دوسرے میں انسان ، تیسرے میں پرند ، جب جانوروں کا گوبر پھیل گیا تو اللہ تعالیٰ نے نوح کی طرف وحی بھیجی کہ ہاتھی کی دم ہلاؤ ۔ آپ کے ہلاتے ہی اس سے خنزیر نر مادہ نکل آئے اور وہ میل کھانے لگے ۔ چوہوں نے جب اس کے تختے کترنے شروع کئے تو حکم ہوا کہ شیر کی پیشانی پر انگلی لگا ۔ اس سے بلی کا جوڑا نکلا اور چوہوں کی طرف لپکا ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا کہ ” نوح علیہ السلام کو شہروں کے غرقاب ہونے کا علم کیسے ہوگیا ؟ “ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ” انہوں نے کوے کو خبر لینے کے لیے بھیجا لیکن وہ ایک لاش پر بیٹھ گیا ، دیر تک وہ واپس نہ آیا تو آپ علیہ السلام نے اس کے لیے ہمیشہ ڈرتے رہنے کی بد دعا کی ۔ اسی لیے وہ گھروں سے مانوس نہیں ہوتا ۔ پھر آپ علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا وہ اپنی چونچ میں زیتون کے درخت کا پتہ لے کر آیا اور اپنے پنجوں میں خشک مٹی لایا اس سے معلوم ہو گیا کہ شہر ڈوب چکے ہیں ۔ آپ علیہ السلام نے اس کی گردن میں خصرہ کا طوق ڈال دیا اور اس کے لیے امن و انس کی دعا کی پس وہ گھروں میں رہتا سہتا ہے ۔ حواریوں نے کہا ” اے رسول علیہ السلام ! واللہ ! آپ انہیں ہمارے ہاں لے چلئے کہ ہم میں بیٹھ کر اور بھی باتیں ہمیں سنائیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” یہ تمہارے ساتھ کیسے آسکتا ہے جب کہ اس کی روزی نہیں “ ۔ پھر فرمایا ” اللہ کے حکم سے جیسا تھا ویسا ہی ہو جا “ ، وہ اسی وقت مٹی ہو گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18151:ضعیف) نوح علیہ السلام تو کشتی بنانے میں لگے اور کافروں کو ایک مذاق ہاتھ لگ گیا وہ چلتے پھرتے انہیں چھیڑتے اور باتیں بناتے اور طعنہ دیتے کیونکہ انہیں جھوٹا جانتے تھے اور عذاب کے وعدے پر انہیں یقین نہ تھا ۔ اس کے جواب میں نوح علیہ السلام فرماتے ” اچھا دل خوش کر لو وقت آ رہا ہے کہ اس کا پورا بدلہ لے لیا جائے ۔ ابھی جان لو گے کہ کون اللہ کے عذاب سے دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور کس پر اخروی عذاب آچمٹتا ہے جو کبھی ٹالے نہ ٹلے “ ۔