الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
الۤرٰ۔ ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں، پھر انھیں کھول کر بیان کیا گیا ایک کمال حکمت والے کی طرف سے جو پوری خبر رکھنے والا ہے۔
تعارف قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جو حروف سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفصیل اس تفسیر کے شروع میں سورۃ البقرہ کے ان حروف کے بیان میں گزر چکی ہے جسے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ ’ یہ قرآن لفظوں میں محکم اور معنی میں مفصل ہے ‘ ۔ پس مضمون اور معنی ہر طرح سے کامل ہے ۔ یہ اس للہ کا کلام ہے جو اپنے اقوال و احکام میں حکیم ہے ۔ جو کاموں کے انجام سے خبردار ہے ۔ یہ قرآن اللہ کی عبادت کرانے اور دوسروں کی عبادت سے روکنے کے لیے اترا ہے ۔ سب رسولوں پر پہلی وحی توحید کی آتی رہی ہے ، سب سے یہی فرمایا گیا ہے کہ لوگ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے سوا اور کسی کی پرستش نہ کریں ۔ پھر فرمایا کہ ’ اللہ کی مخالفت کی وجہ سے جو عذاب آ جاتے ہیں ان سے میں ڈرا رہا ہوں اور اس کی اطاعت کی بنا پر جو ثواب ملتے ہیں ، ان کی میں بشارت سناتا ہوں ‘ ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کے خاندانوں کو آواز دیتے ہیں ۔ زیادہ قریب والے پہلے ، پھر ترتیب وار جب سب جمع ہو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ { اگر میں تم سے کہوں کہ کوئی لشکر صبح کو تم پر دھاوا کرنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ } انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے آج تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی جھوٹ سنا ہی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { سنو میں تم سے کہتا ہوں کہ قیامت کے دن تمہاری ان بد اعمالیوں کی وجہ سے سخت تر عذاب ہو گا ، پس تم ان سے ہوشیار ہو جاؤ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4770) پھر ارشاد ہے کہ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی کہہ دو کہ میں تمہیں اپنے گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کرتا ہوں اگر تم بھی ایسا ہی کرتے رہے تو دنیا میں بھی اچھی زندگی بسر کرو گے اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی بڑے بلند درجے عنایت فرمائے گا ‘ ۔ قرآن کریم نے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَـنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ» ۱؎ (16-النحل:97) میں فرمایا ہے کہ ’ جو مرد و عورت ایماندار ہو کر نیک عمل بھی کرتا رہے ، اسے ہم پاکیزہ زندگی سے زندہ رکھیں گے ‘ ۔ صحیح حدیث میں بھی ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ { اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں تو جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ سے پائے گا ، یہاں تک کہ جو لقمہ تو اپنی بیوی کے منہ میں دے اس کا بھی ۔ فضل والوں کو اللہ تعالیٰ فضل دے گا } } ۔ (صحیح بخاری:2742) یعنی گناہ تو برابر لکھا جاتا ہے اور نیکی دس گناہ لکھی جاتی ہے پھر اگر گناہ کی سزا دنیا میں ہی ہوگئی تو نیکیاں جوں کی توں باقی رہیں ۔ اور اگر یہاں اس کی سزا نہ ملی تو زیادہ سے زیادہ ایک نیکی اس کے مقابل جا کر بھی نو نیکیاں بچ رہیں ۔ پھر جس کی اکائیاں دھائیوں پر غالب آ جائیں وہ تو واقعی خود ہی بد اور برا ہے ۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے جو اللہ کے احکام کی روگردانی کر لیں اور رسولوں کی نہ مانیں کہ ایسے لوگوں کو ضرور ضرور قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ۔ تم سب کو لوٹ کر مالک ہی کے پاس جانا ہے ، اسی کے سامنے جمع ہونا ہے ۔ وہ ہرچیز پر قادر ہے ، اپنے دوستوں سے احسان اپنے دشمنوں سے انتقام ، مخلوق کی نئی پیدائش ، سب اس کے قبضے میں ہے ۔ پس پہلے رغبت دلائی اور اب ڈرایا ۔