ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تو انھوں نے بہت تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔
. ان نبیوں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کی قوم کے پاس بھیجا ۔ اپنی دلیلیں اور حجتیں عطا فرما کر بھیجا ۔ لیکن آل فرعون نے بھی اتباع حق سے تکبر کیا اور تھے بھی پکے مجرم اور قسمیں کھا کر کہا کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔ «وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (27-النمل:14) حالانکہ دل قائل تھے کہ یہ حق ہے لیکن صرف اپنی بڑھی چڑھی خود داری اور ظلم کی عادت سے مجبور تھے ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ اللہ کے سچے دین کو جادو کہہ کر کیوں اپنی ہلاکت کو بلا رہے ہو ؟ کہیں جادوگر بھی کامیاب ہوتے ہیں ؟ ان پر اس نصیحت نے بھی اُلٹا اثر کیا اور دو اعتراض اور جڑ دئیے کہ تم تو ہمیں اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹا رہے ہو ۔ اور اس سے نیت تمہاری یہی ہے کہ اس ملک کے مالک بن جاؤ ۔ سو بکتے رہو ہم تو تمہاری ماننے کے نہیں ۔ اس قصے کو قرآن کریم میں باربار دہرایا گیا ہے ، اس لیے کہ یہ عجیب و غریب قصہ ہے ۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام سے بہت ڈرتا بچتا رہا ۔ لیکن قدرت نے موسیٰ علیہ السلام کو اسی کے ہاں پلوایا اور شاہزادوں کی طرح عزت کے گہوارے میں جھلایا ۔ جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو ایک ایسا سبب کھڑا کر دیا کہ یہاں سے آپ چلے گئے ۔ پھر جناب باری نے ان سے خود کلام کیا ۔ نبوت و رسالت دی اور اسی کے ہاں پھر بھیجا ۔ فقط ایک ہارون علیہ السلام کو ساتھ دے کر آپ علیہ السلام نے یہاں آکے اس عظیم الشان سلطان کے رعب و دبدبے کی کوئی پرواہ نہ کر کے اسے دین حق کی دعوت دی ۔ اس سرکش نے اس پر بہت برا منایا اور کمینہ پن پر اتر آیا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں رسولوں کی خود ہی حفاظت کی وہ وہ معجزات اپنے نبی کے ہاتھوں میں ظاہر کئے کہ ان کے دل ان کی نبوت مان گئے ۔ لیکن تاہم ان کا نفس ایمان پر آمادہ نہ ہوا اور یہ اپنے کفر سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوئے ۔ «فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» (6-الأنعام:45) ’ آخر اللہ کا عذاب آہی گیا اور ان کی جڑیں کاٹ دی گئیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ‘ ۔