إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے نعمت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔
خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ، جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ «بِإِیمَانِہِمْ» میں [ ب ] سبب کی ہو ، اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو ؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بدصورت ، بدبو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کر کے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف «سبْحانَک اللَّہُمّ» کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہو گا ۔ «تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہُ سَلَـمٌ» ۱؎ (33-الأحزاب:44) ’ جس دن یہ اللہ سے ملاقات کریں گے ان کا تحفہ سلام ہوگا ‘ ، «لاَ یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْواً وَلاَ تَأْثِیماً» (56-الواقعۃ:25،26) ’ نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات ، صرف سلام ہی سلام کی آواز ہو گی وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ‘ ۔ در و دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ «سَلاَمٌ قَوْلاً مِّن رَّبٍّ رَّحِیمٍ» ۱؎ (36-یس:58) ’ مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا ‘ ۔ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آ کر سلام کریں گے ، «وَالمَلَـئِکَۃُ یَدْخُلُونَ عَلَیْہِمْ مِّن کُلِّ بَابٍسَلَـمٌ عَلَیْکُمُ» ۱؎ (13-الرعد:23 ، 24) ’ ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے ، کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ‘ ، آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَـبَ» ۱؎ (18-الکہف:1) ’ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ‘ ۔ «الْحَمْدُ للَّہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْض» ۱؎ (6-الأنعام:1) ’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ‘ ، وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2835) یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لامحالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔