وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دے۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن مار دو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کر لے حجت الہٰی پوری ہو جائے پھر اپنے امن میں ہی اسے اس کے وطن پہنچا دو بے خوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کر لے ۔ یہ اس لیے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں انہیں دینی معلومات بہم پہنچاؤ اللہ کی دعوت اس کے بندوں کے کانوں تک پہنچا دو ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو تیرے پاس دینی باتیں سننے کے لیے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں باامن پہنچ جائے ۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے جو دین سمجھنے کے لیے آۓ اور اسے جو پیغام لے کر آۓ امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی یہی ہوا قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا ۔ عروہ بن مسعود ، مکرزبن حفص ، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے ۔ یہاں آ کر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ چیز بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گئ ۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ” کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو ؟ “ اس نے کہا : ” ہاں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:383/1:صحیح) آخر یہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی کوفہ میں امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا ۔ اسے ابن النواحہ کہا جاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا ماننے والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلوایا اور فرمایا : ” اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں ، اسے قتل کر دیا گیا ۔ اللہ کی لعنت اس پر ہو ۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن وامان دے دیا ہو تو جب تک وہ دارالاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے ۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دارالاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے ، زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہاں ٹھہر سکتا ہے ۔ پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر کے دو قول امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ وغیرہ علماء کے ہیں ۔