سورة الاعراف - آیت 185

أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا انھوں نے نگاہ نہیں کی آسمانوں اور زمین کی عظیم الشان سلطنت میں اور کسی بھی ایسی چیز میں جو اللہ نے پیدا کی ہے اور اس بات میں کہ شاید ان کا مقررہ وقت واقعی قریب آ چکا ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شیطانی چکر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور و فکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ باایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فرد مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق ، اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے ؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اور اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو ؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں ؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد ، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ راست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے ؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کی کڑک اور کھڑکھڑاہٹ ہو رہی ہے ۔ میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ پھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے ، میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا : یہ سود خور ہیں ۔ جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آ کر میں نے دیکھا : نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شور و غل ہے ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا : یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غور و فکر نہ کر سکیں ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:353/2:ضعیف) اس کے ایک راوی علی بن زید بن جدعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔