وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس کے رہنے والوں کو تنگی اور تکلیف کے ساتھ پکڑا، تاکہ وہ گڑ گڑائیں۔
ادوار ماضی اگلی امتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے رسول آئے اور ان کے انکار پر وہ امتیں مختلف بلاؤں میں مبتلا کی گئیں مثلاً بیماریاں ، فقیری ، مفلسی ، تنگی وغیرہ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اکڑنا چھوڑ دیں اور اس کے سامنے جھک جائیں ، مصیبتوں کے ٹالنے کی دعائیں کریں اور اس کے رسول کی مان لیں ۔ لیکن انہوں نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نکال دیا ۔ باوجود بری حالت ہونے کے دل کا کفر نہ ٹوتا ، اپنی ضد سے نہ ہٹے تو ہم نے دوسری طرح پھر ایک موقعہ دیا ۔ سختی کو نرمی سے ، برائی کو بھلائی سے ، بیماری کو تندرستی سے ، فقیری کو امیری سے بدل دیا تاکہ شکر کریں اور ہماری حکمرانی کے قائل ہو جائیں لیکن انہوں نے اس موقعہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا ۔ جیسے جیسے ڈھیل دیے گئے ، ویسے ویسے کفر میں پھنسے ، بد مستی میں اور بڑھے اور مغرور ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ زمانہ کے اتفاقات ہیں ۔ پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے ۔ کبھی دن بڑے ، کبھی راتیں ۔ زمانہ ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا ۔ الغرض اتفاق پر محمول کر کے معمولی سی بات سمجھ کر دونوں موقعے ٹال دیئے ۔ ایمان والے دونوں حالتوں میں عبرت پکڑتے ہیں ۔ مصیبت پر صبر ، راحت پر شکر ان کا شیوہ ہوتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { مومن پر تعجب ہے ۔ اس کی دونوں حالتیں انجام کے لحاظ سے اس کے لئے بہتر ہوتی ہیں ۔ یہ دکھ پر صبر کرتا ہے ، انجام بہتر ہوتا ہے ۔ سکھ پر شکر کرتا ہے ، نیکیاں پاتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2999) پس مومن رنج و راحت دونوں میں اپنی آزمائش کو سمجھ لیتا ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے : { بلاؤں کی وجہ سے مومن کے گناہ بالکل دور ہو جاتے ہیں اور پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ہاں منافق کی مثال گدھے جیسی ہے جسے نہیں معلوم کہ کیوں باندھا گیا اور کیوں کھولا گیا ؟ } ۱؎ (مسند احمد:287/2:حسن) «اَوْ کَمَا قَالَ» پس ان لوگوں کو اس کے بعد اللہ کے عذاب نے اچانک آ پکڑا ۔ یہ محض بےخبر تھے ، اپنی خرمستیوں میں لگے ہوئے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اچانک موت مومن کے لیے رحمت ہے اور کافروں کے لیے حسرت ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:136/6:ضعیف)