قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جو بڑے بنے ہوئے تھے، اے شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ہمراہ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے ضرور ہی نکال دیں گے، یا ہر صورت تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے۔ اس نے کہا اور کیا اگرچہ ہم ناپسند کرنے والے ہوں؟
شعیب علیہ السلام کی قوم نے اپنی بربادی کو آواز دی شعیب علیہ السلام کی قوم نے آپ کی تمام نصیحتیں سن کر جو جواب دیا ، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ہوا یہ کہ دلیلوں سے ہار کر یہ لوگ اپنی قوت جتانے پر اتر آئے اور کہنے لگے : اب تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلا وطنی قبول کرو یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ ۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ہم تو دل سے تمہارے ان مشرکانہ کاموں سے بیزار ہیں ۔ انہیں سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ پھر تمہارے اس دباؤ اور اس خواہش کے کیا معنی ؟ اگر اللہ نہ کرے ، ہم پھر سے تمہارے کفر میں شامل ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر گناہگار کون ہو گا ؟ اس کے تو صاف معنی یہ ہیں کہ ہم نے دو گھڑی پہلے محض ایک ڈھونگ رچایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھ کر نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔ خیال فرمائیے کہ اس جواب میں اللہ کے نبی علیہ السلام نے ایمان داروں کو مرتد ہونے سے کس طرح دھمکایا ہے ؟ لیکن چونکہ انسان کمزور ہے ۔ نہ معلوم کس کا دل کیسا ہے اور آگے چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے ؟ اس لیے فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ سب کچھ ہے ۔ اگر وہی کسی کے خیالات الٹ دے تو میرا زور نہیں ۔ ہر چیز کے آغاز ، انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ ہمارا توکل اور بھروسہ اپنے تمام کاموں میں صرف اسی کی ذات پاک پر ہے ۔ اے اللہ ! تو ہم میں اور ہماری قوم میں فیصلہ فرما ۔ ہماری مدد فرما ۔ تو سب حاکموں کا حاکم ہے ، سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ، عادل ہے ، ظالم نہیں ۔