سورة البقرة - آیت 94

قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے اگر آخرت کا گھر اللہ کے ہاں سب لوگوں کو چھوڑ کر خاص تمھارے ہی لیے ہے تو موت کی آرزو کرو، اگر تم سچے ہو۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مباہلہ اور یہودی مع نصاریٰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ ان یہودیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے ہلاک کر دے ۔ لیکن ساتھ ہی پیشنگوئی بھی کر دی کہ یہ لوگ ہرگز اس پر آمادہ نہیں ہوں گے چنانچہ یہی ہوا کہ یہ لوگ مقابلہ پر نہ آئے اس لیے کہ وہ دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آسمانی کتاب قرآن کریم کو سچا جانتے تھے اگر یہ لوگ اس اعلان کے ماتحت مقابلہ میں نکلتے تو سب کے سب ہلاک ہو جاتے ۔ روئے زمین پر ایک یہودی بھی باقی نہ رہتا ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی آیا ہے کہ اگر یہودی مقابلہ پر آتے اور جھوٹے کے لیے موت طلب کرتے تو سب کے سب مر جاتے اور اپنی جگہ جہنم میں دیکھ لیتے اسی طرح جو نصرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے وہ بھی اگر مباہلہ کے لیے تیار ہوتے تو وہ لوٹ کر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کا نام و نشان بھی نہ پاتے ۔ (مسند احمد:248/1:صحیح) سورۃ الجمعہ میں بھی اسی طرح کی دعوت انہیں دی گئی ہے آیت «قُلْ یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَاءُ لِلہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 6 ) آخر تک پڑھئے ان کا دعویٰ تھا کہ آیت «نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہٗ» ( 5 ۔ المائدہ : 18 ) ہم تو اللہ کی اولاد اور اس کے پیارے ہیں یہ کہا کرتے تھے آیت «لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی» ( 2 ۔ البقرہ : 111 ) جنت میں صرف یہودی اور نصاریٰ ہی جائیں گے اس لیے انہیں کہا گیا کہ آؤ اس کا فیصلہ اس طرح کر لیں کہ دونوں فریق میدان میں نکل کر اللہ سے دعا کریں کہ اسے جھوٹے کو ہلاک کر لیکن چونکہ اس جماعت کو اپنے جھوٹ کا علم تھا اس لیے تیار نہ ہوئی اور اس کا کذب سب پر کھل گیا اسی طرح جب نجران کے نصرانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے بحث مباحثہ ہو چکا تو ان سے بھی یہی کہا گیا کہ آیت «تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَنَا وَاَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ» ( 3 ۔ آل عمران : 61 ) آؤ ہم تم دونوں اپنی اپنی اولادوں بیویوں کو لے کر نکلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ جھوٹوں پر اپنی لعنت نازل فرمائے لیکن وہ آپس میں کہنے لگے کہ ہرگز اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ نہ کرو فوراً برباد ہو جاؤ گے چنانچہ مباہلہ سے انکار کر دیا جھک کر صلح کر لی اور دب کر جزیہ دینا منظور کر لیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیدنا بوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہا کو ان کے ساتھ امین بنا کر بھیج دیا ۔ اسی طرح مشرکین عرب سے بھی کہا گیا آیت «قُلْ مَن کَانَ فِی الضَّلَالَۃِ فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا» ( 19 ۔ مریم : 75 ) یعنی ہم میں سے جو گمراہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی گمراہی بڑھا دے اس کی پوری تفسیر اس آیت کے ساتھ بیان ہو گی ان شاءاللہ تعالیٰ مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں ایک مرجوع قول یہ بھی ہے کہ تم خود اپنے جانوں کے لیے موت طلب کرو کیونکہ بقول تمہارے آخرت کی بھلائیاں صرف تمہارے لیے ہی ہیں انہوں نے اس سے انکار کیا لیکن یہ قول کچھ دل کو نہیں لگتا ۔ اس لیے کہ بہت سے اچھے اور نیک آدمی بھی زندگی چاہتے ہیں بلکہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کی لمبی عمر ہوئی ہو اور اعمال اچھے ہوں ۔ (سنن ترمذی:2330 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) علاوہ ازیں یہی قول یہودی بھی کہہ سکتے تھے تو بات فیصلہ کن نہ ہوتی ٹھیک تفسیر وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی کہ دونوں فریق مل کر جھوٹ کی ہلاکت اور اس کی موت کی دعا کریں اور اس اعلان کے سنتے ہی یہود تو ٹھنڈے پڑ گئے اور تمام لوگوں پر ان کا جھوٹ کھل گیا اور وہ پیشنگوئی بھی سچی ثابت ہوئی کہ یہ لوگ ہرگز موت طلب نہیں کریں گے اس مباہلہ کا نام اصطلاح میں «تمنی» رکھا گیا کیونکہ ہر فریق باطل پرست کی موت کی آرزو کرتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ تو مشرکین سے بھی زیادہ طویل عمر کے خواہاں ہیں کیونکہ کفار کے لیے دنیا جنت ہے اور ان کی تمنا اور کوشش ہے کہ یہاں زیادہ رہیں خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منافق کو حیات دنیوی کی حرص کافر سے بھی زیادہ ہوتی ہے یہ یہودی تو ایک ایک ہزار سال کی عمریں چاہتے ہیں حالانکہ اتنی لمبی عمر بھی انہیں ان عذابوں سے نجات نہیں دے سکتی چونکہ کفار کو تو آخرت پر یقین ہی نہیں ہوتا مگر انہیں یقین تو تھا لیکن ان کی اپنی سیاہ کاریاں بھی ان کے سامنے تھیں اس لیے موت سے بہت زیادہ ڈتے تھے ۔ لیکن ابلیس کے برابر بھی عمر پالی تو کیا ہوا عذاب سے تو نہیں بچ سکتے ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:376/2) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے بیخبر نہیں تمام بندوں کے تمام بھلے برے اعمال کو وہ بخوبی جانتا ہے اور ویسا ہی بدلہ دے گا ۔