وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ ۚ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۚ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ
اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور (اس کی) بلندیوں پر کچھ مرد ہوں گے، جو سب کو ان کی نشانی سے پہچانیں گے اور وہ جنت والوں کو آواز دیں گے کہ تم پر سلام ہے۔ وہ اس میں داخل نہ ہوئے ہوں گے اور وہ طمع رکھتے ہوں گے۔
جنت اور جہنم میں دیوار اور اعراف والے جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک حجاب ، حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے ۔ اسی دیوار کا ذکر آیت «فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَاب» ۱؎ (57-الحدید:13) میں ہے یعنی ’ ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔ ‘ اسی کا نام «الْأَعْرَافِ» ہے ۔ «الْأَعْرَاف» «عرف» کی جمع ہے ، ہر اونچی زمین کو عرب میں «عرفہ» کہتے ہیں ۔ اسی لیے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں «عرف الدیک» کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” یہ ایک اونچی جگہ ہے ، جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔ “ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کا نام «اعراف» اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ یہاں کون لوگ ہوں گے ؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں ۔ سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برابر ہوں گی ، بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ سیدنا حذیفہ ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے یہی فرمایا ہے ۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے ۔ اور سند سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں ، سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت کے بغیر نکلے پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:164/3:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14713:ضعیف) ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے ۔ بہت ممکن ہے ، یہ موقوف روایتیں ہوں گی ۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے ۔ یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو ۔ اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا : جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ ، میں نے تمہیں بخشا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ۔ ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گی تو دوزخ میں جائے گا ۔ پھر آپ نے «فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینُہُ فَأُولٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَہُمْ فِی جَہَنَّمَ خَالِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:102-103) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا : ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی سے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوئیں ، یہ اعراف والے ہیں ۔ یہ ٹھہرا لیے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے ۔ یہ جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ۔ ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ، ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا ۔ اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا ، انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگو ! ایک نیکی دس گنا کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے ، جتنی ہو ۔ افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے ، اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا : انہیں نہر حیات کی طرف لے جاؤ ۔ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے ، اس کی مٹی مشک خالص ہو گی ، اس میں غوطہٰ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لیے جائیں گے ۔ یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جو چاہو ، مانگو ۔ یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا ۔ پھر فرمائے گا : ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں ۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے ، وہ علامت ان پر موجود ہو گی ۔ جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا ۔ یہی روایت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا ۔ رب العالمین جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے ۔ اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں ۔ جاؤ ! جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14723:مرسل و ضعیف) یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔ ابن عساکر میں فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں ، انہیں عذاب بھی ہو گا ۔ ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا : وہ اعراف پر ہوں گے ، جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اعراف کیا ہے ؟ فرمایا : جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں ۔ } ۱؎ (بیہقی فی البعث:117:ضعیف جداً) [ بیہقی ] مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ صالح دیندار فقہاء علما لوگ ہوں گے ۔ “ ابومجاز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” یہ فرشتے ہیں ، جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کی تلاوت کی اور فرمایا : سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔ “ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے بلکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے ۔ کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا ، غرابت سے خالی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائکہ وغیرہ ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے ۔ یہ یہاں اسی لیے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کر لیں اور سب کو پہچان لیں ۔ یہ جنتیوں سے سلام کریں گے ، جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے ۔ یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لیے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ! ہمیں ظالموں سے نہ کر ۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں ۔ جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی ۔ جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔