سورة الاعراف - آیت 26

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے آدم کی اولاد! بے شک ہم نے تم پر لباس اتارا ہے، جو تمھاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی اور تقویٰ کا لباس! وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ شجرِممنوعہ کو چکھنے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیقہ حیات کا لباس اتر گیا جس کی وجہ سے شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ رہے تھے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ لباس کی افادیت کا بیان کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا علیہا السلام سے خطا سرزد ہونے کی وجہ سے ان کا لباس اتر گیا جس کی بناء پر اولاد آدم کو لباس پہننے اور گناہوں سے بچنے کا حکم دے کر فرمایا ہے کہ لباس پہننے اور گناہوں سے پرہیزگاری اختیار کرنے میں تمہاری خیر ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس سے نصیحت حاصل کرو۔ خیر سے مراد ظاہری کثافت، یا موسم کی حدّت وبرودت سے بچاؤ اور بے حیائی سے بچنا ہے۔ لباس کی فرضیت کے لیے انزلنا اور اسے آیت اللہ قرار دیا ہے۔ جس لباس سے انسان کی حیا، عفّت اور عزت و وقار پامال ہو وہ نہیں پہننا چاہیے لباس کو ظاہری زینت اور شرافت نفس کا ضامن قرار دے کر اس کی اہمیت وفرضیت کو انزلنا کے ساتھ بیان فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا۔ لفظ انزلنا میں لباس کی فرضیت کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اون، روئی اور چمڑا پیدا کرنے کے ساتھ تمہیں لباس سینے اور پہننے کا سلیقہ سمجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے صرف مسلمان یا کسی خاص قبیلے اور قوم کو ہی مخاطب نہیں فرمایا بلکہ لباس کی مقصدیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لباس آدمی کی زینت اور ستر پوشی کا مظہر ہے۔ ﴿یَا بَنِیْٓ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِی سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ﴾ [ الأعراف :26] ” اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمھارے لیے لباس نازل کیا جو تمھارے جسموں کو ڈھانپنے کے ساتھ تمھارے وجود کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ ہے۔ بہترین لباس پرہیزگاری کا لباس ہے۔“ ریش : ریش پرندے کے پروں کو بھی کہا جاتا ہے جو اس کا لباس ہونے کے ساتھ ساتھ حسن و زیبائی کا باعث اور پھر اس کی اڑان اور پروان کا ذریعہ بھی ہیں۔ انسان کیونکہ پوری مخلوق میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے خوبصورت ترین پیدا کیا گیا ہے۔“ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ﴾ [ التین :4) ” بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔“ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس زیب تن کرے جو وضع قطع اور رنگ و ڈیزائن کے اعتبار سے اس کی قدوقامت نکھارو سنوار میں اضافہ کرے۔ لباس کا دوسرا مقصد تقویٰ قرار پایا۔ یہاں تقویٰ کے دونوں معنی لینے چاہییں۔ ظاہری کثافت و نجاست اور موسموں کی حدت و برودت، ہوا اور فضا کے برے اثرات سے اپنے آپ کو بچانا اسی کے باعث آپ (ﷺ) ہمیشہ موسم کے مطابق لباس زیب تن فرماتے۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ گرمیوں میں آپ کھلا کرتا پہنتے۔ آپ (ﷺ) دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو بسا اوقات سامنے بیٹھا ہوا آدمی آپ (ﷺ) کی آستینوں سے بغلوں کے قریب بازوؤں کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ (وَاِنَّہُ یَرفَعُ حَتّٰی یُریٰ بَیَاضُ اِبْطَیْہٖ) [ مشکوٰۃ : کتاب الاستسقاء] ” آپ (ﷺ) نے اس قدر ہاتھ بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔“ اور اسی طرح آپ (ﷺ) سردیوں میں نسبتاً چست لباس استعمال فرماتے۔ آپ (ﷺ) ایک دفعہ وضو کرنے لگے تو کہنیوں کو دھونے کے لیے آستینیں چڑھانا چاہیں، جب اوپر نہ ہو پائیں تو آپ (ﷺ) کو اچکن اتارنا پڑی۔ (اَنَّ رَسُول اللّٰہِ () لَبِسَ جُبَّۃً رُومِیَۃً ضَیِّقَہَ الْکُمَّیْنِ)[ رواہ البخاری ومسلم : کتاب اللباس ] ” بلاشبہ رسول اللہ (ﷺ) نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔“ لباس کا دوسرا مقصد شرم و حیا کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ قرآن کریم اس کو تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر لباس موسم کے مطابق نہیں تو صحت کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر شریعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو حیا کے رخصت ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی بنا پر خاص کر عورت کو شرم و حیا کی تلقین فرماتے ہوئے پردے کا حکم دیا ہے۔ ” جناب عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب کوئی عورت بے پردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان صفت لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔“ [ رواہ الترمذی :] اور یہ بھی فرمایا کہ عورتیں زیادہ باریک لباس نہ پہنیں۔ جس سے ان کا جسم نظر آئے۔ لباس پہننے کے باوجود برہنہ دکھائی دینے والی عورتوں پر پھٹکار کے الفاظ استعمال کیے۔ ” حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر (رض) رسول پاک (ﷺ) کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ آپ (ﷺ) نے اس کی طرف سے چہرہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء! جب عورت جوان ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔“ [ مشکوۃ، کتاب اللباس] دوسری روایات میں یہ وضاحت موجود ہے کہ چہرے کا ڈھانپنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر چہرہ ننگا ہو تو پردے کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ غرور اور تکبر سے بچیے : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَااَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِیْ النَّارِ) [ مشکوۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھے گا اس کے ٹخنوں کو آگ میں جلایا جائے گا۔“ آپ (ﷺ) کے ملبوسات کے رنگ وڈیزائن : (عَن سَمُرَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ اِلْبَسُوا الثّیَابَ الْبِیْضَ فَاِنَّھَا اَطْہَرُ وَاَطْیبُ وَکَفِّنُوْا فِیْھَا مَوتَاکُمْ) ” حضرت سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ سفیدکپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ زیا دہ صا ف ستھرے اور نفیس ہوتے ہیں۔ اور اپنے فوت ہونے والوں کو سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔“ [ مشکوٰۃ: کتاب اللباس] آپ (ﷺ) سفید لباس پسند کرنے کے باوجود رنگ دار لباس بھی زیب تن کرتے تھے۔ خصوصاً وفود سے ملاقات کرتے ہوئے گیرورنگ کالباس پہنتے۔ بالکل کالا، سبز اور سرخ رنگ کالباس کبھی بھی استعمال نہیں کیا۔ مخصوص لباس اور ہمیشہ ایک ہی رنگ اختیار کیے رکھنا نیکی کی نمائش اور جاہل صوفیا کا طریقہ ہے۔ احادیث کی مقدس دستاویز ات میں کالے یا سرخ رنگ کے لباس کے جو اشارات ملتے ہیں اس سے مراد سرخی یا سیاہی مائل کپڑے ہیں۔ حافظ ابن قیم (رض) نے لکھا ہے کہ بالکل سیاہ، سبز اور سرخ لباس آپ (ﷺ) نے نہیں پہنا۔ حدیث میں ایسے رنگوں سے مراد ان رنگوں کا غالب ہونا ہے۔ البتہ دستار مبارک اور سردیوں میں اوپر لینے والی چادر خالص کالے رنگ کی استعمال فرمائی۔ (عَنْ عَمْرِ وبْنِ حُرَیْثٍ (رض) قَالَ رَأَیْتُ النَّبِیَّ () عَلَی الْمِنْبَرِ وَعَلَیْہِ عَمَامَۃٌ سَوْدَآءَ) ” حضرت عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) کو منبر پر تشریف فرما دیکھا اور آپ (ﷺ) سیاہ پگڑی سجائے ہوئے تھے۔“ [ مشکوٰۃ: کتاب اللباس] وضع قطع کے اعتبار سے چند معمولی تبدیلیوں کے علاوہ آپ (ﷺ) نے وہی لباس استعمال فرمایا جو اس زمانے میں لوگ پہنا کرتے تھے۔ اس دور میں لوگ اکثر قمیص کے ساتھ تہبند اور سر پر دستار سجایا کرتے تھے۔ یہی بڑے اور معزز لوگوں کا لباس ہوا کرتا تھا۔ البتہ معاشرے میں پاجامہ اور شلوار بھی لوگوں کے زیراستعمال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن قیم (رض) نے اس بات کی طرف اشارے دیے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) شلوار بھی پہنا کرتے تھے۔ جبکہ صحابہ کرام (رض) سے شلوار یا پاجامہ اور سروں پر ٹوپیاں پہننے کے تو کافی ثبوت موجود ہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ مَنْ أَکَلَ طَعَامًا ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہٰذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ وَمَنْ لَبِسَ ثَوْبًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی ہٰذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِیہٖ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ)[ رواہ ابو داؤد : کتاب اللباس] ” حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا جو شخص کھانا کھائے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ کے لیے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے بغیر مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ جو کوئی کپڑا پہنے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنا یا اور مجھے بغیر کسی مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے لباس اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگ اس کے ساتھ جسم اور اپنی شرافت کی حفاظت کریں۔ 2۔ لباس پہننے میں ہی بہتری ہے بشرطیکہ انسان اس کی حقیقت سمجھ جائیں۔ 3۔ لباس پہننے کا مقصدزینت اور تقویٰ کا حصول ہے تفسیر بالقرآن : نصیحت حاصل کرو : 1۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل :41) 2۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف :130) 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا۔ (صٓ :29) 4۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے (نرومادہ) بنادیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الذاریات :49) 5۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر :27) 6۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ:221) 7۔ صاحب عقل ودانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر :9)