قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم ضرور خسارہ پانے والوں سے ہوجائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 25) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا آدم (علیہ السلام) کو ان کی غلطی پر توجہ دلانا اور آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا کا اللہ کے حضور معذرت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جونہی آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب نہ جانے اور شیطان کی دشمنی سے آگاہ نہیں کیا تھا ؟ یہ فرمان سنتے ہی دونوں نہایت عاجزی اور شرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں معافی مانگنے لگے اے ہمارے رب ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا ہے۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والوں میں ہوں گے۔ آخرت کا خسارہ واضح ہے دنیا کی زندگی میں نقصان یہ ہے کہ تو نے ہمیں عزت وعظمت سے نوازا لیکن ہم اپنی غلطی کی وجہ سے یہ مقام کھوچکے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ﴿ دَلَّ﴾ کا لفظ آیا ہے جس کا معنیٰ ہے اوپر سے نیچے آنا یہ گراوٹ روحانی بھی ہوسکتی ہے اور مکانی بھی۔ یہاں دونوں قسم کاتنزل پایا جاتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 32تا 37کی تفسیر میں ہم نے عرض کیا ہے کہ اس مقام پر تینوں قسم کی مخلوق کی فطرت کافرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان“ کے ساتھ معذرت کی انہیں اسی طرح ہی قربِ الٰہی حاصل رہا۔ شیطان اپنے گناہ پر مصر رہا تو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ اور لعنتی قرار پایا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی خطا پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت قبول کرلی گئی تاہم یہ حکم ہوا تم سب کے سب زمین پر اترجاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ زمین تمہارے لیے عارضی طور پر جائے قرار اور ایک معین مدت تک زیست کا سامان ہے ہاں یاد رکھوکہ اب تمہیں زمین میں جینا اور مرنا ہے اور اسی سے ہی محشر کے دن اٹھایا جانا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارتے وقت کہا گیا تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو یہاں ایک دوسرے کا دشمن ہونے سے مراد پہلا دشمن شیطان ہے جو انسان کا ابدی اور ازلی دشمن ہے جس کی دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ جس نے دشمن پر بھروسہ کیا وہ مارا گیا اور بسا اوقات میاں بیوی بھی آپس میں دشمن اور ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اولاد بھی ماں باپ کی مخالف اور دشمن بن جایا کرتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی فطرت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِین التَّوَّابُونَ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی (ﷺ) نے فرمایا ابن آدم خطا کرنے والا ہے اور خطا کاروں میں اچھے وہ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) کَانَ یَقُولُ فِی سُجُودِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (ﷺ) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرمادے۔“ تفسیر بالقرآن : اللہ رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر :49) 2۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحۃ:2) 3۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی :25) 4۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف :58) 5۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف :156) 6۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ:43) 7۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر :56) 8۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 9۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب :43)