فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ
تو یقیناً ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور یقیناً ہم رسولوں سے (بھی) ضرور پوچھیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 6 سے 7) ربط کلام : قوم کس قدر بھی اکھڑ مزاج ہو اور تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہو اسے آخر وقت تک سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے کیونکہ ہر نبی سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ جس طرح نبی سے اس کی امت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح امت سے سوال ہوگا کہ اس نے اپنے نبی کی دعوت کا کیا جواب دیا۔ چنانچہ قیامت کے دن تمام انبیاء ( علیہ السلام) وقت مقررہ کے مطابق اپنی اپنی امت کو لے کر عدالت کبریا میں حاضر ہوں گے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر فرد کے سامنے اس کا اعمال نامہ پیش فرمائیں گے۔ جس میں ایک بات بھی حقیقت کے خلاف نہ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر بات پر حاوی ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر امت اور نبی سے سوال کرے گا : 1۔ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کیا تمھارے پاس رسول نہ آئے جو میری آیات پڑھ کر سناتے تھے ؟ (الزمر :71) 2۔ اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ (الانعام :130) 3۔ اے بنی آدم کیا تمھارے پاس رسول نہ آئے ؟ (الاعراف :35) 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز رسولوں کی جماعت کو اکٹھا کرکے امتوں کے سلوک کے بارے میں سوال کرے گا۔ (المائدۃ:109) 5۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ بن مریم سے سوال کرے گا۔ (المائدۃ:116)