وَكَم مِّن قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا فَجَاءَهَا بَأْسُنَا بَيَاتًا أَوْ هُمْ قَائِلُونَ
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کردیا، تو ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آیا، یا جب کہ وہ دوپہر کو آرام کرنے والے تھے۔
فہم القرآن : (آیت 4 سے 5) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فرمان نہ ماننے اور اس کی نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام۔ سورہ کے تعارف میں ہم نے عرض کیا ہے کہ سورۃ کے پہلے رکوع میں ساری سورۃ کے مضامین کا خلاصہ ذکرہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام اور امتوں کے پاس اپنے رسول بھیجے جو انکو اللہ تعالیٰ کے احکام بتلاتے اور باربار نصیحت کرتے تھے کہ اے لوگو! اپنے رب کی ہدایات پر عمل کرو۔ اس میں تمہارا بھلا ہے اور ہم تمہارے خیرخواہ ہیں لیکن لوگوں نے اپنے رب کی ہدایات ماننے اور انبیاء (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے آبا کے رسم ورواج، بزرگوں کے اقوال اور ذاتی خیالات کو مقدم جانا۔ اس فکروعمل پر انہیں باربارتنبیہ کی گئی کہ اگر تم نے اپنی طرزحیات کو نہ بدلا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمھیں آلے گا لیکن وہ اپنے فکروعمل پر مصر اور انبیاء (علیہ السلام) کی توہین کرتے اور ان سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حجت تمام ہوئی تو اس کے عذاب نے انہیں ایسے وقت میں آدبوچا جب وہ غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ یعنی ایسی حالت میں عذاب آیا کہ وہ آہ وزاری بھی نہ کرسکے۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان اور قوم جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے آخر وقت میں توبہ نصیب نہ ہو۔ انہوں نے غفلت میں زندگی گزاری اور غفلت کی حالت میں پکڑے گئے اگر کسی کو ہوش آیا بھی تو وہ یہی کہہ رہا تھا کہ واقعی ہم ظالم ہونے کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ 2۔ عذاب عموماً اس وقت آتا ہے جب لوگ غفلت و بے فکری میں پڑے ہوتے ہیں۔ 3۔ عذاب کے وقت سبھی اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں۔