قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
کہہ دے کیا میں اللہ کے سوا کوئی رب تلاش کروں، حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔ اور کوئی جان کمائی نہیں کرتی مگر اپنے آپ پر اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی، پھر تمھارے رب ہی کی طرف تمھارا لوٹ کر جانا ہے، تو وہ تمھیں بتائے گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : کفار نبی معظم (ﷺ) کی جدوجہد سے تنگ آکر بالآخر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان کی آخری تجویز یہ تھی کہ ہم آپ کے الٰہ کی عبادت آپ کے طریقہ کے مطابق کریں گے اور آپ ہمارے بتوں کی تعظیم بھی کریں۔ اس کے جواب میں آپ سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ صاف صاف فرما دیں کیا میں ذات کبریا کو چھوڑ کر ایسا رب تلاش کروں جو تمھارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے ہیں جبکہ جس رب کی میں عبادت کرتا، اور دعوت دیتا ہوں وہ ہر چیز کا سچا اور حقیقی رب ہے۔ جن باطل معبودوں پر تم بھروسہ کرتے ہو جن کو تم اپناداتاو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے ہو وہ نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ کسی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ بلکہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھاۓ گا۔ ہر نفس اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہے اور سب نے مالک حقیقی کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہی لوگوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ نہ اس کے سامنے کوئی دم مار سکے گا اور نہ ہی اس کے فیصلہ سے انحراف کی کسی کو جرأت ہوگی۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار بناتا اور اس میں جوابدہی کا تصور پیدا کرتا ہے۔ (عن أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) حِینَ أَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُول اللّٰہِ لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِئْتِ مِنْ مَّالِی لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) کھڑے ہوئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ آپ (ﷺ) نے فرمایا اے قریش کے لوگو ! تم اپنی ذمہ داری خود اٹھاؤ میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبد مناف میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے صفیہ رسول معظم (ﷺ) کی پھوپھی میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے فاطمہ بنت محمد میرے مال سے جو چاہتی ہے مجھ سے سوال کرلے میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔“ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْئًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، وہ آدمی دیکھے گا تو سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ 2۔ آخرت میں ہر بندہ صرف اپنا ہی بوجھ اٹھاۓ گا۔ 3۔ ہر کسی کو اللہ رب العالمین کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔