وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اور چوپاؤں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے اور کچھ زمین سے لگے ہوئے (پیدا کیے)۔ کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں رزق دیا اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔
فہم القرآن : (آیت 142 سے 144) ربط کلام : اہل مکہ جس طرح من ساختہ اصولوں کی بنیاد پر اپنی فصلوں میں اللہ کے سوا دو سروں کا حصہ مقرر کرتے تھے۔ اسی باطل اصول کی بنیاد پر انھوں نے جانوروں کے بارے میں بھی یہ اصول بنالیا تھا کہ فلاں مردوں کے لیے جائز ہے اور فلاں جانور صرف عورتوں کو کھانے کی اجازت ہوگی۔ شریعت نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمودات کا۔ رسول اکرم (ﷺ) بھی اسی چیز کو حلال اور حرام قرار دینے کے پابند ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام یا حلال کرنے کا حکم دیا ہو۔ بصورت دیگر کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال و حرام کے ضابطے بنائے اور ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام اور اس کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے۔ سورۃ التحریم کی پہلی آیت میں نبی اکرم (ﷺ) کو مخاطب کرتے ہوئے اسی اصول کی وضاحت فرمائی کہ اے نبی (ﷺ) آپ کو کسی طرح بھی یہ اختیار نہیں کہ آپ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیں۔ یہاں ” حمولہ“ سے مراد وہ جانور ہیں جو سواری، باربرداری اور کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً بیل، اونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر۔” الفرش“ کا لفظ استعمال فرما کر ان جانوروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کھیتی باڑی، سواری اور بار برداری کی بجائے انسان کی دوسری ضروریات پورا کرتے ہیں۔ بھیڑ، بکری اور مرغ وغیرہ جس میں گوشت، انڈے، زیبائش اور میڈیکل کی ضروریات یہاں تک کہ ان کی کھال اور ہڈیوں سے بے شمار چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کا رزق ہے انھیں کھاؤ اور استعمال کرو لیکن شیطان کی پیروی کرنے سے بچو۔ کیونکہ شیطان تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے۔ یہ شیطان کی کارستانی اور اس کی پیروی کا نتیجہ ہے کہ لوگ جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے ان پر غیر اللہ کا نام لیتے اور انھیں بتوں اور مزارات کی نذر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پرلے درجے کی ناشکری اور اس کی بغاوت کے مترادف ہے۔ اہل مکہ نے اپنے من ساختہ اصولوں کے مطابق کسی جانور کا مادہ اور کسی کا نر حرام ٹھہرا لیا تھا۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت ،139,138 میں ان کا عقیدہ بیان ہوا ہے کہ جس جانور یا کھیتی کو وہ اپنے بتوں کی نذر کرتے ان کے بارے میں یہ اصول کار فرما تھا کہ اس میں جو بچہ پیدا ہو وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال اور ہماری عورتوں کے لیے اس کا کھانا ہرگز جائز نہیں اگر اونٹنی اور گائے وغیرہ سے پیدا ہونے والا بچہ مردہ ہو تو اس کو مرد اور عورتیں کھا سکتی ہیں۔ یہاں بھیڑ، بکری کے چار جوڑوں کا ذکر کرنے کے بعد مشرکین سے استفسار فرمایا کہ اگر تمھارے بے ہودہ اصول اور باطل عقیدہ کی کوئی ٹھوس دلیل ہے تو اس کی علمی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے من ساختہ حرام وحلال کے نظریہ میں سچے ہو۔ علم سے مراد وحی کا علم ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ تمھارے من گھڑت اصولوں کی کسی بھی شریعت سے تائید نہیں ہوتی گویا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول پر یہ حکم نازل نہیں کیا کہ جس میں یہ ہو کہ فلاں جانور کا مادہ حلال ہے اور اس کا نرحرام! بھیڑ اور بکری کے جوڑوں کے بعد اونٹ اور گائے کے چار جوڑوں کا ذکر فرما کر سوال کیا ہے ان کے نر یعنی مذکر حرام ہیں یا ان کے مادے ؟ یا ان کے بچے جو ان کی مؤنث کے پیٹ میں ہوتے ہیں۔ اگر تم اپنے نقطہ نظر میں سچے ہو تو بتاؤ کہ کیا جب اللہ تعالیٰ نے ان کے جائز اور ناجائز کا حکم دیا تھا تو تم میں سے کوئی اس وقت موجود تھا۔ حرام و حلال کے یہ اصول دراصل اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان ہیں۔ یاد رکھو وہ شخص سب سے بڑا ظالم ہے جو اپنے جھوٹ کو اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے تاکہ اس جہالت کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے انھیں کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ مسائل : 1۔ ہر طرح کے جانوروں کو پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا عنایت کیا پاکیزہ اور حلال رزق کھانا چاہیے۔ 3۔ شیطان تمام لوگوں کا واضح دشمن ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو حلال کو حرام اور حلال کو حرام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگا کر لوگ ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔