سورة الانعام - آیت 141

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کیے چھپروں پر چڑھائے ہوئے اور نہ چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور کھیتی، جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور نہ ملتے جلتے۔ اس کے پھل میں سے کھاؤ، جب وہ پھل لائے اور اس کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کرو اور حد سے نہ گزرو، یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جن کھیتوں میں مشرک غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی پیدا کرنے، اگانے اور پکانے والا ہے۔ زیتون : Olive (انگریزی، فرانسیسی، جرمن ) Oliva (روسی، لاطینی ) زیتون ( عربی، فارسی، ہندی، اردو، پنجابی) zayit ,Zaith ( عبرانی) نباتاتی نام : Ole ae uropae a Linn. قرآنی آیات بسلسلہ زیتون : 1۔ سورۃ الانعام آیت : 100 ، 2۔ سورۃ الانعام آیت : 142 ، 3۔ سورۃ النحل آیت : 11 ، 4۔ سورۃ المومنون آیت : 20 ، 5۔ سورۃ التین آیت :2 زیتون کا ذکر قرآن پاک میں اس کے نام سے چھ بار آیا ہے اور ایک مرتبہ سورۃ المومنون، آیت : 20اس کی جانب یہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے طور سینا کے اطراف ایک ایسا درخت پیدا کیا ہے جس میں ایسا تیل ہوتا ہے جو سالن کے کام آتا ہے۔ زیتون کا نباتاتی نام (Oleaeuropaea) ہے۔ یہ ایک چھوٹا درخت ہے جس کی اونچائی اوسطاً 25فٹ ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار قلم لگا کر ہوتی ہے کیونکہ بغیر قلم لگائے ہوئے پودے اچھے پھل نہیں دیتے ہیں۔ اس کے کچے پھل چٹنی اور اچار کے کام میں لائے جاتے ہیں، جبکہ پکے ہوئے پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتے ہیں۔ یہ بیضاوی شکل کے 2سے 3سنٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں ان کے گودے میں پندرہ سے چالیس فیصد تک تیل ہوتا ہے جو اپنی خصوصیات اور صاف و شفاف ہونے میں بے مثال مانا جاتا ہے۔ دل کے امراض میں زیتون کا تیل سود مند ثابت ہوتا ہے۔ زیتون کا اصل وطن فلسطین اور شام کا وہ علاقہ ہے جو فینی شیا (Phoenicia) کہلاتا ہے۔ یہیں اس کی کاشت تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح شروع کی گئی اور اسی خطہ سے یہ پودہ مغرب اور مشرق کے ممالک میں لے جایا گیا۔ زیتون کی وطنیت (Nativity) کا حوالہ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت 35میں دیا گیا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے ” ایک مفید درخت زیتون ہے جو نہ پورب کا ہے نہ پچھم کا۔“ زیتون کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اور عرب کے کئی ممالک میں ملتے ہیں، لیکن اسپین اور اٹلی زیتون کے پھل اور تیل پیدا کرنے میں سرفہرست ہیں۔ روغن زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ روغن زیتون چراغ کی روشنی کے لیے زمانہ قدیم سے بڑا مشہور اور بڑا اہم رہا ہے۔ عمدہ قسم کا تیل نہایت شفاف ہوتا ہے۔ اسے اگر کسی صاف برتن یا گلاس یا گلاس کی قندیل میں رکھ دیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ کوئی شے ہے جو خود ہی روشن ہے اور اگر اس سے چراغ جلایا جائے تو ایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورۃ النورآیت 35میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ” نور علی نور“ کہا گیا ہے۔ انار : قرآنی نام : رُمَّانٌ دیگر نام : Pomegranate (انگریزی) Granade (فرانسیسی) Granat ( روسی) Granatapfel ( جرمن) Punicum (لاطینی) Me lagrana ( اطالوی) Rimmon (عبرانی) Granada (ہسپانوی) Roa (یونانی) (سنسکرت) تیلگو داون (کشمیری) رمان (عربی) انار (فارسی، اردو، ہندی، پنجابی) نباتاتی نام : Punica granatum linn.(Family:punicaceae) قرآنی آیات بسلسلہ انار : (1) سورۃ الانعام آیت :100 (2) سورۃ الانعام آیت : 142 (3) سورۃ الرحمن آیت : 68,69 انار کا ذکر ’ رمان‘ کے نام سے قرآن حکیم میں تین بار آیا ہے اور تینوں بار انسان کو اہم نصیحتیں کی گئی ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کی آیت :142 میں حکم ہوا کہ کھجور، زیتون اور انار وغیرہ کی جب فصلیں کاٹی جائیں تو فوراً اس میں سے ایک حصہ حقدار کو دے دیا جائے اس طرح اشارہ کیا گیا قدرت کی نعمتیں عام انسانوں کے لیے بھی ہیں جو لوگ باغ کے پھلوں کو اور کھیت کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص رکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں وہ اللہ کی نظر میں ناپسند یدہ انسان ہیں۔ قرآن کا یہ ارشاد سماج میں اجارہ داری اور سرمایہ داری کو نامناسب قرار دیتا ہے۔ نباتاتی سائنس کی رو سے انار کا نام Pumigranatum ہے۔ انار کے دانوں کا رس ایک ہلکی اور فرحت انگیز غذا ہے جو دل کے امراض میں بہت سود مند ہے میٹھا انار قبض کشا ہوتا ہے جبکہ تھوڑی سی کھٹاس والے انار کے دانے معدہ کے ورم اور دل کے لیے لا جواب دوا اور ٹانک ہیں ان دانوں سے تیار کیا گیا شربت Dyspepsia جیسے معدہ کی روگوں کو فائدہ دیتا ہے۔ اسہال یا پیچش میں مبتلا مریضوں کے لیے پچاس گرام انار کا رس ایک بہترین علاج بھی ہے اور کمزوری رفع کرنے کا طریقہ بھی۔ قلت خون، یرقان، بلڈ پریشر، بواسیر اور ہڈیوں وجوڑوں کے درد میں انار کے طبی فوائد طب یونانی آیورویدک اور ایلو پیتھی میں بھی تسلیم کیے گئے ہیں۔ شہد کے ساتھ انار رس Biliousness میں کمی لاتا ہے۔ انار کا پھل دل ودماغ کو فرحت اور تازگی بخشتا ہے۔ انار کی جڑ کی چھال ایک ایسی بے مثال دوا ہے جسے پانی میں ابال کر مریض کو پلانے سے Tape worm سمیت پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ بعض تحقیقات سے معلوم ہوا ہے اس کا ابلا ہوا پانی ٹی بی اور پرانے بخار کو ختم کرنے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ مزید براں ملیریا کے بعد کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔ بعض نسوانی امراض میں انار کی جڑ کی چھال کا استعمال ایک حتمی علاج سمجھا جاتا ہے۔ انار کے پھولوں سے ایک لال رنگ حاصل کیا جاتا ہے جو غذائی اشیاء میں استعمال ہو سکتا ہے انار کے پھول اسقاط حمل کو روکنے کی بھی دواہیں۔ انار کے پھل کا چھلکا بھی طبی اہمیت کا حامل ہے۔ دودھ میں چھلکا ابال کر پلانے سے پرانی پیچش کے مریض کو فوراً افاقہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا تجارتی طور پر بھی بڑے کام کی چیز ہے کیونکہ اس میں بیس فیصد سے زیادہ (رض) annin ہوتا ہے اس لیے کچے چمڑے کو پکانے کے لیے ان چھلکوں کا استعمال بڑے پیمانے پر افریقہ کے کچھ ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ مراکش اور اسپین کا جو چمڑا کسی زمانے میں بہت مشہور تھا اس کی (رض) anning انار کے چھلکوں سے کی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ نعمتوں میں انار بھی ایک بڑی نعمت ہے جس کی بابت خدائے برتر فرماتا ہے: ﴿فِیہِمَا فَاکِہَۃٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ فَبِأَیِّ آَلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ [ الرحمٰن :68] ” ان دونوں میں میوے ہوں گے اور کھجور اور انار۔ تم اپنے پرور دگا رکی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی مختلف انواع و اقسام کے درخت اگاتا ہے۔ 2۔ پھلوں کے علیحدہ رنگ و مختلف ذائقے ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ 3۔ فصل کاٹتے وقت اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔