وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 112 سے 113) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے نبی (ﷺ) جن حالات سے آپ گزر رہے ہیں۔ ایسے اعتراضات اور حالات سے تمام انبیاء کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ کیونکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر نبی کا ایک دشمن ضرور ہوا کرتا تھا۔ ﴿کَذٰلِکَ﴾ کا لفظ اس بات کی ترجمانی کرر ہا ہے کہ نبی آخر الزماں (ﷺ) سے پہلے جتنے انبیاء کرام (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے انھیں کئی قسم کے مظالم برداشت کرنے پڑے۔ ان پاکباز شخصیتوں پر الزامات لگائے گئے ان کی دعوت پر ہر قسم کی تنقید کی گئی لیکن وہ جو اں مرد پوری استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر قائم رہے۔ یہاں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ہر نبی کے جنوں اور انسانوں میں سے دشمن بنائے تھے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو عیاری، مکاری اور ملمع سازی کی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ یہاں شیاطین کے لیے وحی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ جو بات پیغمبر کو بتلانی ہوتی ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ سورۃ النحل آیت 68میں شہد کی مکھی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکھی کو شہد بنانے کی وحی کرتا ہے۔ شیطان صفت انسان اور جنات غیر محسوس طریقے سے اپنے چیلوں کے ذریعے برائی اور بے حیائی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگ برائی کی طرف مائل ہوجائیں۔ یہ باتیں شیطان ان کے ذہن میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دے رکھی ہے اور انسانوں کے لیے دنیا کی زندگی کو امتحان گاہ بنایا ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے کہ انسان کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کرنے کے بعد اختیار اور مہلت دی جائے کہ وہ ان میں سے کون سی چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسے لوگ اور شیطان اس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے تاکہ جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل اسی طرف مائل رہیں جو کچھ وہ اپنی من مرضی سے اپنے لیے پسند کرچکے ہیں۔ یہاں برائی کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔ جب شیطان کسی شخص کو پھسلاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل میں باطل خیالات پیدا کرتا ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب نہ کرے تو بالآخر اس کا دل ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ 2۔ انسان کے دل میں جو نظریہ جگہ پکڑ جائے وہ اسی پر اپنے آپ کو راضی اور مطمئن سمجھتا ہے۔ 3۔ آدمی جب اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی بات کی طرف مائل اور اس پر راضی ہوجائے تو وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے اکثر اوقات اس گمراہی پر لوگوں سے جھگڑتا ہے آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح رہے تو انسان صحیح رہتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو تمام جسم خراب ہوجاتا ہے وہ انسان کا دل ہے۔ (رواہ البخاری : باب فضل من استبراء الدینہ) ﴿أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُورًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ﴾ [ سورۃ الأنعام :122] ” بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کرتا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ کافروں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِینُہُ مِنْ الْجِنِّ قَالُوا وَإِیَّاکَ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ وَإِیَّایَ إِلَّا أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِی عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے، صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرا تابع ہے اس لیے وہ نیکی کے سوا مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتا۔“ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فِی الْمَسْجِدِ جَالِسًا وَکَانُوا یَظُنُّونَ أَنَّہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ فَأَقْصَرُوْا عَنْہُ حَتّٰی جَاءَ أَبُو ذَرٍّ فَاقْتَحَمَ فَأَتٰی فَجَلَسَ إِلَیْہِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ (ﷺ) فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ ہَلْ صَلَّیْتَ الْیَوْمَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَصَلِّ فَلَمَّا صَلَّی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ الضُّحَی أَقْبَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ تَعَوَّذْ مِنْ شَرِّ شَیَاطِیْنِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَہَلْ لَلْإِنْسِ شَیَاطِینٌ قَالَ نَعَمْ شَیَاطِینُ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِیْ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا) [ مسند احمد :21257] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کا یہ گمان تھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اس لیے وہ آپ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے تھے اتنے میں حضرت ابوذر (رض) آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب انھوں نے چار رکعات چاشت کی نماز پڑھ لی تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا شیطان جنوں اور انسانوں سے پناہ طلب کیا کرو انھوں نے کہا اے اللہ کے نبی کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! جن اور انسان لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ ہر نبی کے شیاطین اور انسانوں میں دشمن ہوا کرتے تھے۔ 2۔ جنوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد شیطان ہوتے ہیں۔ 3۔ شیاطین لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے خوش نما باتیں لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ 4۔ آخرت کا انکار کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ 6۔ آخرت کے منکروں کے دل برائی کی طرف مائل رہتے ہیں۔