وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
اور وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر ایک ٹھہرنے کی جگہ اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں جو سمجھتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : تخلیق انسان سے توحید کی دلیل۔ ” اور وہی ہے جس نے تمھیں ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اس کا ایک ٹھکانا ہے اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ ہم نے گہری سوچ رکھنے والوں کے لیے آیات کو کھول کر بیان کیا ہے۔“ انسان ایک نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد ایک خلیہ ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل بنتا ہے مرد کی صلب کے اندر ایک ٹھکانے پر ہوتا ہے، پھر اس کا مستقر عورت کا رحم ہوتا ہے اس کے بعد زندگی نشو و نما اور پھیلاؤ حاصل کرتی ہے۔ جب تک اللہ کے حکم سے روئے زمین پر انسانی حیات موجود رہے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ حیات کو سمجھنے کے لیے فقہ گہرائی پر اترنا، غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ جتنی بات انسان کے سمجھنے کی ہے اور اس کے لیے ضروری یا مفید ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کھول کر بیان فرما دی ہے۔ جہاں سے عالم غیب کی حدود شروع ہوتی ہیں وہاں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ نفس واحدہ سے حیات کا نکلنا اور پھر ایک طویل سلسلہ قائم ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور صفت تخلیق پر دلالت کرتا ہے۔ جسے سوچ کر انسان اللہ کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ مذکر اور مؤنث کی ایک متناسب تعداد ہر وقت دنیا میں موجود رہتی ہے تاکہ توالدوتناسل کا سلسلہ قائم رہ سکے اور ایک مقرر وقت تک دنیا کا سلسلہ چل سکے۔ اس موضوع پر مفصل گفتگو کی گنجائش نہیں۔ صرف مذکر یا مؤنث کے نطفے کی پیدائش کی کیفیت اور اس کے متعلق بعض باتوں پر مختصراً کلام کرنا ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ربانی تقسیم سے کس طرح یہ تذکیر و تانیث کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جو حیات کے قیام و استمرار کا ذریعہ ہے۔ نر و مادہ کا تناسب و توازن : اللہ تعالیٰ علیم و قدیر کی تقدیر سے نر و مادہ کے کروموسوم باہم ملتے اور مذکر یا مؤنث بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک غیبی تدبیر ہے۔ جس میں اللہ کے سوا کسی کا ہاتھ کار فرما نہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی مذکر اور کبھی مونث یا صرف مذکر یا صرف مؤنث پیدا فرماتا ہے۔ یہ اس توازن و تناسب کو برقرار رکھتا ہے جو زمین پر توالدوتناسل کے لیے ضروری ہے۔ اس سے انسانیت میں انتشار نہیں پڑتا۔ کوئی شخص یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ صرف نسل کی بقاء و کثرت کے لیے تو چند نروں کا وجود کافی ہوسکتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ توازن و تناسب کیوں قائم فرمایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حیوانات میں تو واقعی ایسا ممکن اور درست تھا مگر نسل انسانی میں صرف پیدائش کافی نہ تھی۔ بلکہ انسانی نشو و نما اور تربیت اولاد کے لیے ضروری تھا کہ بچے ایک خاندان میں والدین کے زیر سایہ پیدا ہوں اور نشو و نما پائیں۔ صرف اسی صورت میں زمین پر انسانیت برقرار رہ سکتی تھی۔ پس قضاء و قدر خداوندی کا یہ فیصلہ ہوا کہ نر و مادہ میں عدد کا تناسب بھی قائم رکھا جائے۔ حیوانات میں یہ ضروری نہ تھا لہٰذا وہاں پر اس تعداد اور توازن کا قائم رکھنا لازم نہ ہوا۔ اگر صرف اس توازن ہی کو لیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی حکمت و تدبیر اور رحمت و تقدیر پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس آیت کا اختتام جو اس جملے پر فرمایا گیا ہے کہ ﴿قَدْ فَصَّلْنَا الاْٰ یَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَھُوْنَ﴾ کی گہرائی یہی ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں اور ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسانی تخلیق کے مختلف مراحل مقرر فرمائے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے بعد اس کے رہنے سہنے کی منازل متعین فرمائی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی توحید کے دلائل اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ہر اعتبار سے اسے لاشریک سمجھیں۔ تفسیر بالقرآن: انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ( النحل :4) 2۔ اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ ( آل عمران :59) 3۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ ( النساء :1) 4۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ ( المؤمنون :12) 5۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ ( الدھر :2) 6۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ ( النساء :1)