بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
کیوں نہیں! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 81 سے 82) ربط کلام : من گھڑت تصورات اور بد اعمالیاں آدمی کو جہنم میں لے جائیں گی جبکہ جنت کے وارث تو صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والے لوگ ہی ہوں گے۔ اہل کتاب اور ہر فرد کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ بلند بانگ دعوے، دل کش نعرے، حسب ونسب کے امتیازات اور بزرگوں کے ساتھ نسبت اس شخص کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتے جو ایمان سے عاری اور تادم مرگ شرک وبدعت میں ملوث رہا ہو اسے ہر حال میں جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جانا ہے اور ان میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ اس کے برعکس کوئی شخص اعلیٰ حسب و نسب اور بڑے بڑے امتیازات و القابات سے محروم‘ مگر صاحب ایمان وکردار ہو۔ ایسے لوگ جہاں کہیں کے رہنے والے اور جو بھی ہوں اگر ان کا دامن ایمان کی نعمت اور کردار کی دولت سے مالا مال ہے تو وہ جنت میں ضرور جائیں گے اور وہاں انہیں حیات جاوِداں حاصل ہوگی۔ یاد رہے کہ یہاں زندگی بھر گناہوں میں گھرے ہوئے سے مراد کفر و شرک اور بدعات میں ملوّث ہونے والا شخص ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ کِبْرٍ وَّلَا یَدْخُلُ النَّارَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ إِیْمَانٍ ) (رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل: 1۔ کفرو شرک اور کبیرہ گناہ کا مرتکب اگر توبہ کے بغیر مرجائے تو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ 2۔ ایمان خالص اور عمل صالح اپنانے والے لوگ ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔