وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے، ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 84 سے 88) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف دلائل کے اعتبار سے برتری عنایت فرمائی تھی بلکہ رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز کرتے ہوئے انبیاء کی صورت میں نیک اولاد عنایت فرمائی جنھوں نے ان کے مشن کو جاری و ساری رکھا تاآنکہ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے دین حنیف کا پھر یرا پوری دنیا میں سربلند فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تن تنہا اپنے باپ، قوم اور حاکمِ و قت کے سامنے ڈٹے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دلائل کے اعتبار سے انھیں اپنی قوم پر برتری عنایت فرمائی بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ پوری دنیا کی امامت سے سرفراز کیا گیا اور ان کی دعوت کو چار سو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی اولاد اور وارث نصیب فرمائے کہ جن میں اولوالعزم انبیاء عظیم الشان خلفاء پیدا ہوئے۔ ان میں ایسی شخصیات بھی تھیں جو بیک وقت منصب خلافت و نبوت پر فائز ہوئیں اور انھوں نے توحید کی دعوت کو دنیا میں عام کیا۔ یہاں ان انبیاء کا نام بنام ذکر کیا گیا ہے جو انفرادی اوصاف کے اعتبار سے باقی انبیاء سے برتر تھے۔ جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے جو اوصاف ان شخصیات میں پائے جاتے تھے وہ سب کے سب نبی آخر الزمان (ﷺ) کی ذات میں ودیعت کردیے گئے ہیں۔ ان انبیاء (علیہ السلام) کو ایک دوسرے کے باپ، اولاد اور بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کو اپنے کام کے لیے منتخب فرما کر صراط مستقیم کی ہدایت سے نوازا تھا۔ اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی کہ ہدایت وہی ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے اور وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے ہدایت کی دولت سے مالا مال فرماتا ہے۔ یہاں ہدایت سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے کیونکہ اس عقیدے کے بغیر کوئی عبادت بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔ عقیدۂ توحید کی ضد شرک ہے جو ہر برائی کا منبع، عظیم گناہ اور انتہا درجے کا ظلم ہے اس لیے یہاں اٹھارہ عظیم المرتبت ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ ہستیاں بھی شرک کا ارتکاب کرتیں تو ان کی زندگی بھر کی عبادت وریاضت ضائع کردی جاتی۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ثَلَاثًا قَالُوا بَلٰی یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ اَلْإِشْرَاک باللَّہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَقَالَ أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتَّی قُلْنَا لَیْتَہُ سَکَت) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ما قیل فی شہادات الزور] ” عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا میں تم کو بڑے گناہ کی خبر نہ دوں آپ نے ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور پھر آپ ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا اور جھوٹی بات کہنا۔ آپ (ﷺ) اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک ہم نے سوچا کاش! آپ خاموش ہوجائیں۔“ (عن ابْن عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ لَمَّا بَعَثَ النَّبِیُّ (ﷺ) مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَی نَحْوِ أَہْلِ الْیَمَنِ قَالَ لَہُ إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلَی قَوْمٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَی أَنْ یُوَحِّدُوا اللّٰہَ تَعَالَی فَإِذَا عَرَفُوا ذَلِکَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی یَوْمِہِمْ وَلَیْلَتِہِمْ فَإِذَا صَلَّوْا فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ زَکَاۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ غَنِیِّہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فَقِیرِہِمْ فَإِذَا أَقَرُّوا بِذٰلِکَ فَخُذْ مِنْہُمْ وَتَوَقَّ کَرَائِمَ أَمْوَال النَّاسِ)[ رواہ البخاری : کتاب التوحید،] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (ﷺ) نے معاذ بن جبل (رض) کو اہل یمن کی طرف بھیجا آپ (ﷺ) نے فرمایا تم اہل کتاب کی طرف جا رہے ہو سب سے پہلے تم جس بات کی انہیں دعوت دو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانیں جب وہ اس کی توحید کے قائل ہوجائیں تو انہیں بتانا۔ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں دن اور رات میں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو بتا نا اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں سے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر ان کے غرباکو دی جائے۔ جب وہ اس بات کا اقرار کرلیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان کے بہترین مال سے بچنا۔“ نواسے بھی آدمی کی اولاد ہوتے ہیں : (عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ)[ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین] ” یعلی بن مرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا جو حسین سے محبت کرے گا حسین میری اولاد سے ہے۔“ انبیاء ( علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں : (عن ابی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ أَنَا أَوْلَی النَّاس بابْنِ مَرْیَمَ وَالْأَنْبِیَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء،] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگو! میں ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔“ مسائل : 1۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی یعنی ایک ہی خاندان نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تمام انسانوں سے ممتاز فرمایا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو خصوصی ہدایت سے نوازا۔ 4۔ اگر انبیاء (علیہ السلام) میں سے کوئی بھی شرک کرتا تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔