الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 82 سے 83) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی گفتگو میں توحید کو امن کا ضامن قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے عقیدۂ توحید کے تقاضے پورے کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایمان کی ابتدا اور انتہا توحید پر ہے باقی دین کے ارکان توحید کا تقاضا ہیں۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک نہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا کسی کو حصہ بنانا اس کی صفات میں کسی کو شریک سمجھنا پر لے درجے کا ظلم ہے۔ کیونکہ ظلم کا بنیادی معنی یہ ہے ” وَضْعُ الشَّی ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ“ ” کسی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا۔“ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ کا حصہ یا جز قرار دینا جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف اللہ کا بیٹا کہا بلکہ مریم علیھا السلام، عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو ملا کر تثلیث کا عقیدہ پیش کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بعض لوگ نبی (ﷺ) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ انبیاء کو شریک بنانا اور انھیں ان کے مقام سے بڑھا کر خدا بنانا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی صفات کو کسی زندہ یا مدفون بزرگ میں سمجھنے کا نام شرک ہے۔ جسے قرآن مجید پرلے درجے کا ظلم قرار دیتا ہے۔ یہاں ظلم سے مراد شرک اور ایمان سے مراد توحید ہے۔ جن لوگوں نے اپنے ایمان کو شرک کی ملاوٹ سے محفوظ رکھا۔ ہی ہدایت یافتہ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم کی ہولناکیوں سے مامون ہوں گے۔ شرک ظلم ہے اور ظلم کے خلاف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل سجھائی تھی جس کی بنیاد پر انھوں نے ثابت کیا کہ چاند ستاروں اور سورج کو اپنی قسمت کا مالک سمجھنا اور انھیں خیر و شر میں دخیل جان کر ان کی عبادت کرنا ظلم ہے۔ جس کا ان کی قوم کوئی جواب نہ دے سکی اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے دلیل کے اعتبار سے سرنگوں ہوئے۔ اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم پر سربلند ہوئے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ﴿الَّذِینَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ﴾ قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ﴾) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ رسول معظم (ﷺ) کے صحابہ (رض) نے پوچھا ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بلا شبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ 1۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سر بلند کرتا ہے کیونکہ اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقۂ تبلیغ اور دلیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی دلیل قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے چاند، سورج اور ستاروں کو اپنا رب نہیں سمجھتے تھے۔ 2۔ یاد رہے کہ دنیا میں کوئی رسول اور نبی ایسا نہیں گزرا جو دلائل کے حوالے سے اپنی قوم کے سامنے لاجواب اور سرنگوں ہوا ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو گفتگو کا یہ طریقہ سمجھانا اور انھیں ٹھوس دلائل عطا کرنے کی اور بھی حکمتیں ہیں۔ جنھیں اللہ علیم و حکیم خوب جانتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو واضح دلائل عنایت فرمائے۔ 2۔ عقیدۂ توحید ہی امن و سکون کی ضمانت دیتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جس کے چاہتے ہیں درجات بلند فرماتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : شرک ظلم اور گناہ ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہوں نبی اکرم (ﷺ) کا اعلان۔ (الانعام :164) 2۔ جو اللہ کی ملاقات چاہتا ہے وہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف :110) 3۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ (النساء : 48تا116) 4۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء :36) 5۔ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (المائدۃ:72) 6۔ اے بیٹے شرک نہ کر شرک بہت بڑا ظلم ہے حضرت لقمان کی نصیحت۔ (لقمان :13)