وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔
فہم القرآن : ربط کلام : پیغمبر (علیہ السلام) کی تکذیب، آپ سے بار بار آیات کا مطالبہ کرنا اور حقائق کو ٹھکرانادرحقیقت اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ منکرین کا شروع سے یہی وطیرہ رہا ہے۔ ایسے موقعہ پر مومنوں کو ہدایت۔ کفار بار بار پیغمبر (علیہ السلام) سے آیات و معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جب ان کا مطالبہ پورا کردیا جاتا تو وہ ایک اور مطالبہ پیش کردیتے۔ اس طرح انھوں نے اللہ کے دین کو کھیل اور شغل بنا رکھا تھا۔ خوض کا معنی کسی حقیقت کو کھیل تماشا بنانا یا اسے مذاق سمجھنا ہے۔ کفار کھلم کھلا دین اور مسلمانوں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم (ﷺ) کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے کہتے کہ یہ کیسا نبی ہے۔ جسے سفر کے لیے سواری، رہنے کے لیے عمدہ مکان، کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی اور پہننے کے لیے اچھا لباس میسر نہیں۔ جہاں تک اس کے متبعین کا تعلق ہے ان کی اکثریت معاشرے کے کم تر لوگوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اس استہزاء کے ساتھ جب صحابہ (رض) اور نبی محترم (ﷺ) نماز پڑھتے تو یہ لوگ سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کو عطا ہونے والے معجزات کا مذاق اڑاتے۔ چاند دو ٹکڑے ہوا تو انھوں نے آپ کو جادوگر کہا۔ آپ معراج پر پہنچے تو کفار نے اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا۔ قرآن مجید نے اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کی بات کی تو مخالفین نے اسے یوں استہزاء کا نشانہ بنایا کہ ہاں یہ کنگال اور بے خانماں لوگ ہی سلطنت روما کے وارث اور فارس کے فاتح قرار پائیں گے۔ ایسے ماحول اور مجالس کے بارے میں آپ اور آپ کے رفقاء کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہو تو آپ لوگوں کو وہاں ہرگز نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اگر شیطان کے بہلاوے سے ایسی مجلس میں بیٹھ گئے ہوں تو یاد آنے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جو شخص یاد آنے اور مسئلہ جاننے کے باوجود ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر ظالموں کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ آپ کا کام تو فقط اتنا ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع بموقع سمجھاتے رہیں تاکہ ظالم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں کی زندگی سے بچ جائیں۔ (عَنْ اَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوسٰی (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) مَثَلُ الْجَلِیس الصَّالِحِ وَالْجَلِیس السَّوْءِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْکِ وَکِیرِ الْحَدَّادِ لَا یَعْدَمُکَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْکِ إِمَّا تَشْتَرِیہِ أَوْ تَجِدُ ریحَہُ وَکِیرُ الْحَدَّادِ یُحْرِقُ بَدَنَکَ أَوْ ثَوْبَکَ أَوْ تَجِدُ مِنْہُ ریحًا خَبِیثَۃً)[ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب فی العطار] ” حضرت ابو بردہ بن ابو موسیٰ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا نیک اور برے آدمی کی مثال خوشبو بیچنے والے اور بھٹی والے کی ہے۔ خوشبو والے سے تم خوشبو خریدو گے یا اچھی خوشبو محسوس کرو گے۔ جو بھٹی والا ہے اس کی چنگاری تمہارے بدن یا کپڑے کو جلادے گی یا تم اس سے دھواں کی بد بو محسوس کرو گے۔“ مسائل : 1۔ جہاں اللہ کی آیات کا مذاق اڑا یا جائے وہاں جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ 2۔ شیطان کے بہکاوے سے خبردار رہنا چاہیے۔ 3۔ دین کے ساتھ مذاق کرنے والے لوگوں سے کنارہ کشی بہتر ہے۔ تفسیر بالقرآن : ظالم کون : 1۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114) 2۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:140) 3۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 4۔ نبوت کا جھوٹا دعو یٰ کرنے والا ظالم ہے۔ (الانعام :93) 5۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الاعراف :37) 6۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت بڑا ظالم ہے۔ (لقمان :13)