وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔
فہم القرآن : (آیت 59 سے 60) ربط کلام : کفار نے نبی اکرم (ﷺ) سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا جس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو بتلا دیا گیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کس نے ہدایت قبول کرنا ہے اور کس نے گمراہی میں مرنا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر 50میں کفار کے ایک مطالبہ کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ اے نبی (ﷺ) آپ فرما دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا مالک، غیب جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ یہاں دوسرے زاویے سے جواب دیا گیا ہے کہ عذاب نازل کرنے یا اللہ کے خزانوں کی ملکیت کا معاملہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انھیں کوئی نہیں جانتا۔ غیب کے پردوں اور دروازوں کے پیچھے جو کچھ چھپا ہے اس کی چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ وہ زمین کے ذرّے ذرّے اور پانی کے ایک ایک قطرے سے واقف ہے وہ زمین پر پیدا ہونے والے اربوں درخت اور ان پر لگنے والے کھربوں پتوں کو جانتا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں بیک وقت زمین پر گرنے والے پتوں کا اسے علم ہوتا ہے۔ اسی طرح زمین کی تہوں اور اندھیروں میں زندہ، مردہ خشک اور تر کروڑ ہا قسم کے بیجوں کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس کے ہاں لوح محفوظ میں ہر چیز کا ریکارڈ ثبت ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو رات کے وقت فوت کرتا ہے اور وہ سوتے اور جاگتے ہوئے جو حرکات کرتے ہیں وہ ان سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اسی طرح جو دن کی روشنی میں لوگ اعمال کرتے ہیں وہ سب کے سب اس کے احاطہ علم میں ہوتے ہیں۔ وہی اللہ لوگوں کو نیند سے بیدار کرتا ہے۔ اسی طرح صبح و شام، رات اور دن، سونے اور جاگنے کے عمل سے ہر انسان کی زندگی کے دن پورے ہوتے ہیں۔ جس طرح سونے اور جاگنے کا معاملہ ہے ایسے ہی انسان موت کے بعد اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہر کسی کو اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے پھر وہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال اور اس کے انجام سے آگاہ فرمائے گا یہاں نیند کو موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جب انسان گہری نیند سو جاتا ہے تو اسے گرد و پیش میں ہونے والے واقعات کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ نیند اور موت کے درمیان یہ فرق ہے کہ نیند کی حالت میں آدمی زندہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی بہت آواز سے جاگ اٹھتا ہے، موت دنیاوی زندگی کے خاتمے کا نام ہے۔ مرنے والے کو قیامت کا شدید ہنگامہ ہی بیدار کرسکے گا۔ جب انسان موت کے بعد اٹھائے جائیں گے تو پھر سب کو اللہ تعالیٰ کی عدالت عظمیٰ میں پیش ہونا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ہر کسی کو اس کے اعمال اور انجام سے باخبر فرمائے گا۔ مسائل : 1۔ عالم الغیب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ 2۔ بحر و بر میں ہونے والی تمام حرکات و سکنات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن : ” اللہ“ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : 1۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( الانعام :59) 2۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لیے ہے۔ ( یونس :20) 3۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ ( ھود :31) 4۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65)