سورة الانعام - آیت 47

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ کیا تم نے دیکھا اگر تم پر اللہ کا عذاب اچانک یا کھلم کھلا آجائے، کیا ظالم لوگوں کے سوا کوئی ہلاک کیا جائے گا ؟

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 47 سے 50) ربط کلام : سلب شدہ نعمتوں کو بحال کرنا عذاب کو ٹالنا اور کفار کے مطالبے کو پورا کرنا عام شخص تو درکنار کسی رسول کے بس میں بھی نہیں۔ قرآن مجید نے ہر نبی کے بارے میں یہ حقیقت منکشف فرمائی ہے کہ وہ فرشتہ اور کوئی دوسری جنس ہونے کے بجائے بنی نوع انسان میں سے ہی ہوا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اہل کفر ان سے ایسے مطالبات کرتے جنھیں پورا کرنا یا ان چیزوں پر اختیار رکھنے کا دعویٰ کسی نبی نے نہیں کیا تھا۔ انبیائے عظام (علیہ السلام) تو صرف وہی بات کرتے تھے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ انھیں پریشان اور لاجواب کرنے کے لیے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا پاکباز ہستیوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ یہی وطیرہ رسول معظم (ﷺ) کے مخالفوں نے اختیار کر رکھا تھا چنانچہ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی غریب اور کنگال ہیں ہمارے لیے نہ سہی کم ازکم تمھیں اپنے لیے تو رزق کی فراوانی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اس طرح کبھی وہ قدرت کے پوشیدہ امور یعنی غیب کی خبروں کے بارے میں آپ سے سوال کرتے اور کبھی یہ اعتراض اٹھاتے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح انسانی حاجات کا اہتمام کرنے پر مجبور ہے۔ اسے تو ان حاجات اور ضروریات سے مبرا ہونا چاہیے تھا۔ ان مطالبات اور اعتراضات کے جواب میں آپ کو فقط یہی بات کہنے کا حکم دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں نے کبھی ان باتوں کا دعویٰ نہیں کیا میرا دعویٰ تو صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں مجھ پر میرے رب کے پیغامات نازل ہوتے ہیں۔ میں ان کی اتباع اور ابلاغ کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا ہوں اس لیے میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق بات کرتا ہوں اس کی پیروی وہ ہی شخص کرے گا جو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا شخص ہی دانا اور بینا کہلانے کا حق دار ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور و فکر نہیں کرتا وہ حقیقتاً اندھا ہے۔ اندھا اور دیکھنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ بس تمھیں اس حقیقت پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ مسائل : 1۔ اللہ کا عذاب ظالموں کے لیے خاص ہوتا ہے۔ 2۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے اور جنت کی خوشخبری دینے والے تھے۔ 3۔ فاسقین کو دنیا و آخرت میں رسوا کن عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ 4۔ تمام رسول اللہ کی وحی کے پابند تھے۔ ٥۔ کافر و مومن کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن : نبی غیب نہیں جانتے : 1۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام :59) 2۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (یونس :20) 3۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل :65) 4۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ (ھود :31)