وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَن يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں، اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں، جسے اللہ چاہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : حقیقت کا بار بار انکار کرنے کی وجہ سے منکرین کی حالت کا بیان۔ قیامت کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والے بہرے، گونگے ہونے، اور اندھیروں میں ٹامک ٹویاں مارنے کی وجہ سے درندوں اور پرندوں سے بھی کم تر ہیں۔ حقائق کا انکار اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تکذیب کرنے کی وجہ سے انسان بالآخر چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جس طرح مردہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی اسے سردی گرمی، روشنی اور اندھیرے کا احساس ہوتا ہے بالکل یہی حالت ان لوگوں کی ہوجاتی ہے جو حق سننے اور سچ بیان کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں کی بری خصلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر گمراہی مسلط کردیتا ہے۔ جس طرح صحت، تندرستی اور دیگر امور پر اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کا اختیار حاصل ہے اسی طرح ہی ہدایت کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے اور جسے چاہے اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اسے گمراہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ فہم القرآن کی جلد اول، صفحہ۔ 70سورۃ البقرہ آیت۔ 26میں وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کسی کو گمراہ نہیں کرتا جب تک کوئی شخص اپنے لیے گمراہی پسند نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے اسے عقل و شعور کی نعمت سے ہمکنار کرتے ہوئے آسمانی کتب کے ذریعے اس کی رہنمائی کا اہتمام کیا ہے لہٰذا انسان کی گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا مفہوم فقط اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جبراً کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا جب تک انسان اس کی چاہت اور کوشش نہ کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اس طرح ہدایت اور گمراہی بھی اس کے اختیار میں ہے۔ اس لیے انسان کو ہدایت کی دعا اور گمراہی سے بچنے کی توفیق مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : صراط مستقیم : 1۔ صراط مستقیم کی بنیاد۔ (آل عمرآن :101) 2۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمرآن :51)