قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
بے شک ہم جانتے ہیں کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ یقیناً تجھے وہ بات غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں، تو بے شک وہ تجھے نہیں جھٹلاتے اور لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 33 سے 34) ربط کلام : اے نبی (ﷺ) ! جب یہ دنیا عارضی اور اس کے مقابلے میں آخرت دائمی اور اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں یہاں متقین کو ان کی نیکیوں سے بڑھ کر اجر ملنے والا ہے لہٰذا آپ کو مکذّبین کی باتوں پر دل گرفتہ اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (ﷺ) کو بے حساب صبر و تحمل اور عظیم حوصلہ عطا فرمایا تھا اس کے باوجود کفار کے ظلم و ستم، یہود ونصاریٰ کی سازشیں اور منافقین کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے کبھی کبھار آپ پر یشان ہوجایا کرتے تھے۔ پریشانی کا بنیادی سبب لوگوں کی ہدایت اور ان کی خیر خواہی کا جذبہ ہوا کرتا تھا۔ جس پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے نبی! ہم آپ کی فکر مندی، لوگوں کی خیر خواہی اور شب و روز کی مشقت کو جانتے ہیں اور یہ حقیقت بھی اللہ علیم و خبیر کے علم میں ہے کہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی وجہ سے آپ کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ نبوت عطا ہونے سے پہلے یہ لوگ آپ کو صادق و امین کے نام سے جانتے تھے۔ جونہی آپ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر قَوْلُوْالَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا آوازہ بلند کیا تو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر یہ لوگ آپ کے مخالف ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے چچا ابو لہب نے بھرے مجمع میں آپ کو ان الفاظ سے مخاطب کیا : کہ کفار کے جھٹلانے کا معاملہ صرف آپ سے پیش نہیں آیا بلکہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان سب کی تکذیب کی جاتی رہی ہے لیکن وہ کفار کی ایذا رسانی اور تکذیب پر صبر و حوصلہ سے کام لیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ کی نصرت و حمایت آن پہنچتی۔ نصرت و حمایت سے مراد انبیاء ( علیہ السلام) کی اخلاقی کامیابی اور ان کے مقابلے میں دشمن کی ذلت و رسوائی ہے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء (علیہ السلام) کے مخالفین کو مختلف قسم کے عذاب اور ذلت ور سوائی سے دو چار ہونا پڑا۔ اے نبی ! آپ کو عزم و حوصلہ سے کام لینا چاہیے اور یاد رکھیے حالات کوئی بھی صورت اختیار کرلیں اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات اپنی جگہ پر اٹل اور قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی ارشادات تبدیل نہ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اللہ کا وعدہ پورا ہوا اسی طرح سے آپ (ﷺ) کے ساتھ نصرت و ہدایت کا وعدہ پورا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں آپ کامیاب اور آپ کے دشمن ناکام اور نامراد ہوں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ)[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (ﷺ) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں کے بوڑھا کردینے کے بعد۔“ مسائل : 1۔ داعی حق کو مخالفین سے دل آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ کفار اللہ تعالیٰ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں۔ 3۔ تمام انبیاء و رسل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 4۔ دین حق میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن: نبی کو جھٹلانے والے لوگ : 1۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران :184) 2۔ آپ کو اگر انھوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمھارے لیے تمھارے عمل ہیں۔ (یونس :41) 3۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام :147) 4۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح اور دوسرے انبیاء۔ (الحج :42) 5۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا ہے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ (الفاطر :25)