سورة الانعام - آیت 7

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اگر ہم ان پر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی چیز اتارتے، پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوتے تو یقیناً وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، یہی کہتے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کے انتباہ اور پہلی اقوام کے انجام بیان کرنے کے باوجود کفار کے بے جا مطالبات اور ان کا جواب۔ اہل کفر انبیاء ( علیہ السلام) سے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا دعویٰ کسی نبی (ﷺ) نے نہیں کیا تھا اس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اس وقت تک تیری تائید نہیں کرسکتے۔ جب تک تختیوں کی شکل میں ہمارے پاس تورات نہ لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تختیوں کی شکل میں آسمان سے تورات نازل فرمائی۔ مطالبہ پورا ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کی اکثریت نے تورات پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ یہی حال اہل مکہ کا تھا۔ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم تب ایمان لائیں گے کہ جب ہم پر قرطاس یعنی اوراق کی شکل میں کتاب نازل کی جائے اور ہم اس کو اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹول کر یقین کرلیں۔ تب جا کر ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اہل کفر کا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب ان کا مطالبہ پورا ہوجاتا تو وہ اسے جادو قرار دیتے تھے۔ یہی اہل مکہ نے کردار پیش کیا َ۔ جب نبی محترم (ﷺ) سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ کے اشارہ کرنے پر اللہ کے حکم سے چاند دو ٹکڑے ہوا تو کہنے لگے یہ شخص تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ ایسا ہی ان کا رد عمل آپ پر نازل کیے گئے دوسرے معجزات کے بارے میں سامنے آیا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اس نبی کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی گئی جو جگہ جگہ اس کی تائید کرتا اور اس کا انکار کرنے والوں کو موقع پر سزا دیتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اگر ہم فرشتے کو نازل کرتے تو پھر مہلت دیے بغیر موقع پر ہی مجرموں کو سزا دے دی جاتی۔ جس طرح کہ قوم لوط کے پاس فرشتے آئے اور انھوں نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو بستی سے نکل جانے کا موقع فراہم کرنے کے بعد منکروں کو تہس نہس کردیا۔ ﴿قَالُوْا یَا لُوْطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا إِلَیْکَ فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَکَ إِنَّہُ مُصِیبُہَا مَا أَصَابَہُمْ إِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیلٍ مَّنْضُوْدٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ﴾ [ ہود : 81تا83] ” کہنے لگے : اے لوط ! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تمہار اکچھ نہ بگاڑ سکیں گے تم رات کا کچھ حصہ باقی ہو تو اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے نکل جا ؤاور تم میں سے کوئی بھی مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمہاری بیوی پر وہی کچھ گزرنا ہے جو ان پر گزرے گا۔ ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ کیا اب صبح قریب ہی نہیں؟ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ نچلا حصہ بنا دیا پھر ان پر کھنگر قسم کے تہ بہ تہ پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں سے نشان زدہ تھے اور یہ خطہ ان ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں۔“ مسائل : 1۔ اہل کفر انبیاء کرام (علیہ السلام) سے نت نئے مطالبے کیا کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔ 3۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) پرکفار کے جادو کا الزام : 1۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرکا الزام لگایا۔ (القصص :36) 2۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات :52) 3۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء :43) 4۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف :30) 5۔ نبی اکرم (ﷺ) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف :6) 6۔ نبی (ﷺ) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل :47) 7۔ کیا قرآن جادو ہے یا تم نہیں دیکھتے۔ (الطور :15) 8۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعراء : 153۔185)