وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ اس کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہمیں وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اہل مکہ نے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کسی دلیل کی بنیاد پر اپنے آپ پر حرام نہیں کی تھیں بلکہ اس کا سبب آباؤ اجداد کی تقلید تھا جس وجہ سے یہاں تقلید کا رد بھی کردیا ہے۔ ساتھ مسلمانوں کو اطمینان دلایا ہے کہ تم ہدایت پر پکے رہوگے تو دوسروں کی گمراہی کا تم پر چنداں اثر نہیں پڑے گا۔ اور نہ تم ان کے مسؤل بنائے گئے ہو۔ بس تم اپنی فکر کرو۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو پیش آنے والی پانچ رکاوٹیں : 1۔ لوگوں کا پرانے نظریات پرجمے رہنا۔ 2۔ ادیان باطلہ کے تعصبات و تحفظات۔ 3۔ انبیاء کرام کی ذات سے حسد و بغض۔ 4۔ حبّ جاہ اور دنیا پرستی۔ 5۔ بزرگوں اور آباؤ اجداد کی تقلید ۔ یہ تقلید کا ہی نتیجہ تھا کہ مذکورہ جانور کسی آسمانی شریعت میں حرام نہیں کیے گئے تھے۔ لیکن اہل مکہ نے اپنے سے پہلے لوگوں کی دیکھا دیکھی انھیں نہ صرف اپنے آپ پر حرام قرار دیا بلکہ دعویٰ کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں پر حرام قرار دیے تھے۔ جس بنا پر سے ہم بھی ان سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر جائز نہیں سمجھتے۔ تقلید آباء کا عقیدہ ان کے ذہن میں اس قدر پختہ ہوچکا تھا کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ بلا جھجھک کہتے ہمیں وہی کچھ کافی ہے جو ہمارے بزرگ کرتے رہے ہیں۔ اس پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کیا ان کے آباؤ اجداد ہدایت نہ پانے اور شریعت کا علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے رہنما ٹھہرے ہیں؟ مقلدین کی گمراہی کا اندازہ لگائیں کہ وہ جانتے بوجھتے ایسی باتوں کو شریعت سمجھ کر اپناتے ہیں جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے مقابلے میں ان لوگوں کو رہنما سمجھتے ہیں جن کی گمراہی اور بے علمی کی قرآن گواہی دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو تو کس طرح ؟ جہاں تک ائمہ کرام اور بزرگان دین کی تقلید کا تعلق ہے اس کی بھی دین میں کوئی گنجائش نہیں جس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ (1) امت مسلمہ کو بزرگان دین کی اتباع کی بجائے صرف اور صرف نبی آخر الزمان حضرت محمد (ﷺ) کی اتباع کا پابند کیا گیا ہے کیونکہ انسان اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے جس میں دین کے بارے میں کسی دوسرے کی اتباع کی گنجائش نہیں ہے۔ (2) ائمہ کرام اور بزرگان دین کی تقلید سے امت اس لیے بھی آزاد ہے کہ ہر امام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ حدیث مصطفی (ﷺ) کے مقابلے میں میری بات اور فتویٰ کو فی الفور مسترد کردیا جائے کیونکہ وہی سچے ایمان کی نشانی ہے۔ تقلید کے بارے میں ائمہ کے اقوال : امام ابو حنیفہ (رض) کا قول : (اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ) [ تفسیر مظہری] ” جب صحیح حدیث موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔“ امام مالک (رح) کا قول : امام مالک نے روضۃ النبی (ﷺ) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” ہر شخص کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے اگر درست ہو۔ اور اسے ٹھکرایا جا سکتا ہے جب درست نہ ہو۔ مگر اس روضے والے کی بات کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔“ [ حیات امام مالک۔ از امام زہری] امام شافعی (رح) کا قول : (اَجْمَعَ ا لْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی اَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہٗ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) لَایَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَّدَعَھَا لِقَوْلِ اَحَدٍ) [ اعلام المعوقین] ” اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب رسول کریم (ﷺ) کی سنت سامنے آجائے، پھر اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسے کسی کے قول کی بنا پر ترک کردیا جائے۔“ امام احمدبن حنبل (رح) کا قول : (مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَھُوَ عَلٰی شَفَا ھَلَکَتِہِ)[ ابن جوزی] ” جس نے رسول کریم (ﷺ) کی حدیث کو رد کیا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔“ مسائل : 1۔ آباء واجداد کی تقلید کے بجائے قرآن و سنت کی پیروی کرنا چاہیے۔ 2۔ آخرت کو مقدم رکھنا چاہیے۔ 3۔ اللہ کے سامنے حاضری کی فکر کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : تقلید آباء کا نتیجہ اور بہانہ : 1۔ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تو کہتے ہیں جو ہمارے آباء واجداد کرتے تھے ہمیں وہی کافی ہے۔ (المائدۃ:104) 2۔ جب قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کی اتباع کریں گے۔ (لقمان :21)