أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمھارے لیے سمندر کا شکار حلال کردیا گیا اور اس کا کھانا بھی، اس حال میں کہ تمھارے لیے سامان زندگی ہے اور قافلے کے لیے اور تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے، جب تک تم احرام والے رہو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : پہلے زمانے میں بحری سفر بڑا طویل اور مشکل ہوا کرتا تھا جیسا کہ کچھ ملکوں کے لیے آج بھی یہ سفر بڑا طویل اور دشوارہوتا ہے ان ملکوں کے لوگ کئی کئی ہفتے بحری سفر کرنے میں مجبور ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زائر اپنے ساتھ ایک حد تک ہی زاد راہ لے سکتا ہے۔ کبھی کبھار بحری سفر کے دوران جہاز کا اپنے راستہ سے بھٹکنے یا کسی بھنور میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سفر کے ایام غیر معینہ مدت تک بڑھ جاتے ہیں اور پہلے زمانے میں یہ اکثر ہوا کرتا تھا کہ باد مخالف کی وجہ سے بحری جہاز کئی کئی دن تک ٹھہرے رہتے تھے اور بسا اوقات جہاز اپنے راستے سے کئی میل دور ہٹ جایا کرتا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر زادراہ کا ختم ہوجانا بحری سفر کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خاص کرم فرماتے ہوئے بحری سفر میں زائرین کعبہ کے لیے یہ رعایت بخشی کہ اگر وہ عمرہ یا حج کے لیے بحری سفر اختیار کریں تو حالت احرام میں بحری شکار کرنے، اس کے کھانے اور ذخیرہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اس سفر کو عبادت سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس اجازت کا ہرگز معنی نہیں کہ احرام کی حالت میں آدمی عبادت کا ماحول اپنانے کے بجائے شکار کی پکڑ دھکڑ میں مصروف رہے اس لیے اجازت دینے کے ساتھ ہی حکم فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے یہ سفر کرو کیونکہ بالآ خر تم اس کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ مسائل : 1۔ احرام کی حالت میں سمندری شکار حلال ہے 2۔ خشکی کا شکار کرنا احرام کی حالت میں قطعاً جائز نہیں۔ 3۔ تمام لوگوں کو اللہ کے حضور اکٹھا ہونا ہے۔