يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِّنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً اللہ تمھیں شکار میں سے کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائے گا، جس پر تمھارے ہاتھ اور نیزے پہنچتے ہوں گے، تاکہ اللہ جان لے کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے، پھر جو اس کے بعد حد سے بڑھے تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
فہم القرآن : (آیت 94 سے 95) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : تقویٰ اور ایمان کا یہ بھی تقاضا ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کرنے سے اجتناب کرو۔ امام ابن ابی حاتم (رض) نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیات صلح حدیبیہ کے سال نازل ہوئیں۔ جب مسلمان عمرہ کرنے کی غرض سے مدینہ طیبہ سے نکلے تو چند لوگوں کے سوا سب نے میقات پر پہنچ کر احرام باندھا اس حالت میں مسلمانوں کو شکار کرنے سے منع کیا گیا۔ جبکہ شکار مسلمانوں کے اتنا قریب تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جانوروں کی گردنیں دبوچ سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچنے کے بعد جن لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا انھوں نے شکار پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہ کی۔ اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ محرم شخص غیر محرم کو شکار کرنے کا اشارہ بھی نہیں کرے۔ کیونکہ اس حکم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے کہ کون تم میں غیب کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔“ غیب سے مراد یہ نہیں کہ انسان کسی لمحہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ اور اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے۔ غائب سے مراد انسان کی ایسی خلوت ہے جب اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا۔ احرام کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کا حکم سمجھ کرشکار کرنے سے بچنا اور اللہ کے منع کردہ کاموں سے رکنا ہی حقیقی ایمان اور تقویٰ ہے۔ یہاں یہ بھی انتباہ کیا کہ جو شخص خلوت میں اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہو کر اس کی نافرمانی کرتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسے اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم جب حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو میرے سوا تمام صحابہ (رض) نے احرام باندھا ہوا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں اپنا جوتا سینے میں مشغول تھا لیکن انھوں نے مجھے نہیں بتلایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اسے دیکھ لوں۔ اچانک میں نے نظراٹھائی تو گدھا دیکھا۔ گدھا سے مراد نیل گائے ہے۔ میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوا اور جلدی میں کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا میں نے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا کر پکڑا دو۔ انھوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم اس کام میں تمھاری کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے غصہ آیا۔ لیکن میں نے اتر کر کوڑا اور نیزہ پکڑا اور سوار ہوگیا۔ پھر میں نیل گائے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ مار مار کر اسے روک لیا میں نے اس دوران ان سے مدد طلب کی انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ پھر ہم سب نے اس میں سے کھایا۔ اس کے بعد میں رسول اکرم (ﷺ) سے جا ملا۔ میں نے آپ سے عرض کی کہ ہم نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا ہے۔ آپ نے صحابہ (رض) سے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا یا حملہ کرنے کو کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا یا کسی قسم کی مدد کی تھی ؟ صحابہ نے عرض کی نہیں پھر آپ نے محرم صحابہ سے فرمایا تم اسے کھا سکتے ہو۔ پوچھا کیا تمھارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے ؟ میں نے نیل گائے کی دستی پیش کی جسے آپ نے کاٹ کر کھایا۔ (رواہ مسلم : کتاب الحج، بخاری : ابواب العمرۃ) مطلب یہ ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کرنے میں کسی قسم کی مدد نہ کی ہو تو محرم اس شکار میں سے کھا سکتا ہے۔ البتہ جو شخص احرام کی حالت میں ارادۃً شکار کرے اس کا جرمانہ شکار کے برابر حلال جانور بیت اللہ کے قریب قربان کرنا ہوگا جس کا فیصلہ دو منصف مزاج مسلمان کریں گے۔ اگر اس نے نیل گائے شکار کیا ہو تو وہ اس کے برابر گائے یا بکرا قربان کرے گا۔ اگر اس سے چھوٹا جانور شکار کیا ہو تو اس کے برابر کوئی جانور ذبح کرنے کا منصف فیصلہ دیں گے اگر کوئی شخص ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ دو مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دوروزے رکھنا ہوں گے یہ جرمانہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی غلطی کی سزا پائے، ہاں جو یہ حکم آنے سے پہلے ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے والا ہے جو جان بوجھ کر احرام کی حالت میں شکار کرنے کی غلطی کا اعادہ کرے گا اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے گا اور وہ بدلہ لینے کی ہر اعتبار سے قوت رکھتا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ مومنین کے ایمان کو پرکھتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ 3۔ احرام کی حالت میں شکار ممنوع ہے۔ 4۔ احرام کی حالت میں شکاری کی مدد بھی نہیں کرنا چاہیے۔ 5۔ جو مسئلہ جاننے کے باوجود احرام میں شکار کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ زبردست انتقام لینے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سے اس وقت بھی ڈرنا چاہیے جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو : 1۔ جو اللہ سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (الملک :12) 2۔ جو رحمٰن سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش کی خوشخبری ہے۔ (یٰس ٓ:11) 3۔ آپ (ﷺ) ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (الفاطر :18)