قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ
انھوں نے کہا ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ ہمارے لیے واضح کرے وہ (گائے) کیا ہے؟ کہا بے شک وہ فرماتا ہے بے شک وہ ایسی گائے ہے جو نہ بوڑھی ہے اور نہ بچھڑی، اس کے درمیان جوان عمر کی ہے، تو کرو جو تمھیں حکم دیا جاتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 68 سے 71) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر آپ کے ساتھ غلط بیانی اور مذاق کروں۔ کیونکہ پریشانی کے وقت مذاق کرنا اور قتل جیسے مقدمے کو غیر سنجیدہ طور پر لینا سراسر جہالت ہے۔ پیغمبر کی شان تو انتہائی اعلیٰ اور ارفع ہوتی ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پریشانی کے موقعہ پر اس قسم کا مذاق کرے۔ لیکن حیلہ ساز اور مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ مکمل حکم آنے کے باوجود اپنا جرم چھپانے کے لیے۔ وہ سوال پر سوال کرتے چلے گئے۔ جن کے جواب میں یہ کہہ کر گائے کا تعین کیا گیا کہ وہ بوڑھی ہو نہ بچی بلکہ بھر پور جوان ہونی چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم مجرموں کا سراغ لگانے میں سنجیدہ ہو تو تمہیں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے گائے کی رنگت کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہونا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو بھلی اور خوبصورت لگے۔ رنگ اور عمرپوچھ لینے کے باوجود کہنے لگے یہ اوصاف تو کئی گائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہونی چاہیے۔ بار بار کے حیلوں اور بہانوں کی وجہ سے ان کے ضمیر پر ایک بوجھ تھا۔ ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے، اپنی شرمندگی مٹانے اور گھمبیر صورت حال سے بچنے کے لیے انہوں نے کہا انشاء اللہ اس سوال کے بعد ہم اس حکم پر عمل کر گزریں گے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھر وضاحت فرمائی کہ اس گائے کو آج تک ہل جوتنے اور کنواں چلانے میں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ اس کے پورے جسم پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ اس قدر بحث و تکرار اور سوالات واستفسارات کے بعد گائے ذبح کی۔ جس کے گوشت کا ایک ٹکڑا انہوں نے مقتول کی لاش کو لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مردہ کو زندہ کیا۔ قتل کا گناہ : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}لَاتُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِأَنَّہٗ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ) (رواہ البخاری : باب خلق آدم وذریتہ ) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا : جو بھی نفس ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے کو بھی ہوتا ہے کیونکہ اسی نے سب سے پہلا قتل کیا تھا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}قَالَ قَال النَّبِیُّ {ﷺ}أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاءِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ﴿وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ﴾) ” حضرت عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں نبی کریم {ﷺ}نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔“ مسائل : 1۔ شریعت کے احکام میں قیل و قال اور بہانے تلاش کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔