لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
یقیناً تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گا جنھوں نے شریک بنائے ہیں اور یقیناً تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، ان میں سے دوستی میں سب سے قریب ان کو پائے گا جنھوں نے کہا بے شک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لیے کہ بے شک ان میں علماء اور راہب ہیں اور اس لیے کہ بے شک وہ تکبر نہیں کرتے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب میں اچھے لوگوں کا کردار۔ قرآن مجید کا کمال یہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب کی غالب اکثریت کی برائی اور کمزوری کا ذکر کرتا ہے تو ان میں سے اچھے لوگوں کی تعریف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے اسی اصول کے پیش نظر یہودیوں اور مشرکوں کے بارے میں وضاحت کردی گئی کہ یہ عیسائیوں کی نسبت مسلمانوں کے بارے میں زیادہ متشدد ہیں ان کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے بارے میں نرم واقع ہوئے ہیں مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے یہاں عیسائیوں سے مراد سب عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کا وہ فرقہ مراد ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کے نام سے منسوب کرتا ہے یہ مدینہ اور خیبر کے درمیان میں آباد تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے دوسرے عیسائیوں سے بہتر اور مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ آج بھی عیسائیوں میں اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے قریب سمجھتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ لوگ تعداد اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے ہمیشہ تھوڑے رہے ہیں۔ یہ تخصیص اس لیے حق پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ ابتدا سے لے کر آج تک مسلمانوں کی عیسائیوں کے ساتھ ہی معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے یہودی پیچھے رہ کر عیسائیوں اور دوسری اقوام کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں عیسائیوں میں جن لوگوں کو مسلمانوں کا ہمدرد قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس فرقہ میں ایسے علماء اور درویش موجود ہیں جو تکبر و غرور سے اجتناب کرنے والے ہیں اس آیت کی تشریح میں کچھ اہل علم کا خیال ہے ان عیسائیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حلقۂ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مسائل : 1۔ یہودی اور مشرک مومنوں کے سخت ترین دشمن ہیں۔ 2۔ نصاریٰ مومنین کے ساتھ محبت کرنے میں قریب تر ہیں۔ 3۔ نصاریٰ میں عبادت گزار، عالم وزاہد اور تکبر سے اجتناب کرنے والے لوگ ہیں۔ تفسیر بالقرآن : یہود اور مشرکین مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں : 1۔ اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنۃ:1) 2۔ مومنوں کو کفار کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے،(ال عمران :28) 3۔ اے ایمان والو کفار کو دوست نہ بناؤ(النساء :144) 4۔ اے ایمان والو یہود ونصاریٰ کو دوست مت بناؤ(المائد ۃ:51) 5۔ اے ایمان والو ان کو اپنا دوست مت بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ (الممتحنۃ:13) 6۔ اے ایمان والو ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل بنا لیا ہے۔ (المائدۃ: 57تا58) 7۔ اگر وہ اللہ اور اس کے نبی پر اور اللہ کی نازل کردہ کتاب پر ایمان لانے والے ہوتے تو کفار کو دوست نہ بناتے۔ (المائدۃ :81) 8۔ اے ایمان والو اگر تمہارے اٰباؤاجداد کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ:23) 9۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اللہ متقین کا دوست ہے۔ (الجاثیۃ:19) 10۔ ایمان والے شیاطین کے دوست نہیں ہوا کرتے۔ (الاعراف :27)