وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
اور اگر وہ اللہ اور نبی پر اور اس پر ایمان رکھتے ہوتے جو اس کی طرف نازل کیا گیا ہے تو انھیں دوست نہ بناتے اور لیکن ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اہل کتاب پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے باوجود ان کو ایک موقع اور دیا گیا ہے کہ اگر ایمان لائیں تو آخرت کے عذاب اور دنیا کی ذلت سے بچ سکتے ہیں۔ اہل کتاب پھٹکار کے مستحق قرار دیے گئے ہیں تو یہ ان کے عقیدہ اور کردار کا نتیجہ ہے تاہم اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر خالص ایمان لائیں۔ قرآن کی اتباع کریں، خدا کے باغیوں اور منکروں سے محبت کرنے کی بجائے مسلمانوں سے محبت واخوت کا رشتہ جوڑیں تو لعنت کی بجائے اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے یہاں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان کے ساتھ تیسری شرط یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کی ہمدردیاں، رشتہ داریاں کفار کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئیں یہی ان کی عزت رفتہ کا زینہ ہے یہاں یہ بات دو ٹوک انداز میں واضح کردی ہے کہ اہل کتاب دنیا اور آخرت کی ذلت مول لے لیں گے لیکن اللہ، اس کے رسول پر مخلصانہ ایمان لانے اور مسلمانوں سے رشتۂ اخلاص قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی غالب اکثریت فاسق افراد پر مشتمل ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی اور کتاب اللہ پر ایمان لانے والے کفار سے دوستی نہیں کرتے۔ 2۔ بنی اسرائیل کی اکثریت نافرمان ہے۔