وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور انھوں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ واقع نہ ہوگا تو وہ اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے، پھر اللہ ان پر مہربان ہوگیا، پھر ان میں بہت سے اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ سے باربار عہد شکنی، شریعتوں کی تکذیب، انبیاء (علیہ السلام) پرزیادتی کرنے اور اپنی خواہش کا بندہ بننے کی وجہ سے اہل کتاب بصیرت سے تہی دامن ہوگئے۔ جب کوئی قوم ایمان کی دعوے دار ہو کر اپنی خواہشات کو مقدم سمجھے، حقائق کی تکذیب کرے، مصلحین کی گستاخ اور ان کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجایا کرتی ہے کہ اب انہیں کوئی روکنے، ٹوکنے والا نہیں ہے۔ یہود ونصاریٰ اس جرم میں مبتلا ہونے کے بعد اسی خوش فہمی کا شکار ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حقائق دیکھنے اور سننے سے بے بہرہ اور اندھے ہوگئے یہ تو اپنے آپ کو دیکھنے سے اندھے ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر اور ہر دور میں ایسے حکمران مسلط کیے کہ جنہوں نے ان کو ایسی سزائیں دیں جو پہلے کسی قوم کو نہیں دی گئیں تھیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرماتے ہوئے انہیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اپنے اعمال کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے پھر اندھے اور بہرہ پن کا مظاہرہ کیا۔ ﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آَذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ﴾[ الاعراف :179] ”” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ امام رازی (رح) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل پہلی مرتبہ حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں مکمل طور پر اندھے اور بہرے پن کا شکار ہوئے اور دوسری مرتبہ نبی آخر الزماں (ﷺ) کی بعثت کے وقت اس مرض میں مبتلا ہوئے، سوائے چند لوگوں کے باقی یہود ونصاریٰ نے سرورگرامی (ﷺ) کی مخالفت کی تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) کو غلبہ نصیب فرمایا۔ یہودیوں کی باربار عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے غزوہ خندق کے بعد نبی معظم (ﷺ) نے ان کو ہمیشہ کے لیے سر زمین عرب سے نکال دیا۔ چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے یہودی ہزاروں کوششوں کے باوجود مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے حالانکہ یہودی ہر دور میں اپنی قوم سے وعدہ لوگوں کے سامنے کرتے آ رہے ہیں کہ ہم عنقریب مدینہ پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ لیکن ایسانہ ہوسکا اور نہ ہی قیامت تک ہو سکے گا۔ ان شاء اللہ مسائل : 1۔ خوش فہمی انسان کو مروا دیتی ہے۔ 2۔ آنکھیں اور کان بند کرلینے سے مصیبت سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اندھے اور بہرے لوگ : 1۔ اللہ نے یہودیوں پر رجوع فرمایا لیکن یہ پھر اندھے ہوگئے۔ (المائدۃ:71) 2۔ جن پر اللہ کی لعنت ہو وہ اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں۔ (محمد :23) 3۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں ہدایت کی طرف نہیں آیا کرتے۔ (البقرۃ:171) 4۔ ہدایت سے اندھے، بہرے اور گونگے لوگ چوپاؤں سے بھی بدتر ہوا کرتے ہیں۔ (الاعراف :179) 5۔ کافر، اہل کتاب اور مشرکین بد ترین مخلوق ہیں۔ (البینۃ:6)