وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ
اور اگر واقعی اہل کتاب ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ضرور ان سے ان کے گناہ دور کردیتے اور انھیں ضرور نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔
فہم القرآن : (آیت 65 سے 66) ربط کلام : اہل کتاب گستاخیاں اور نافرمانیاں کرنے کی بجائے ایمان اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی جنت کی جھلک پاتے۔ اگر اہل کتاب اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے کی بجائے اس کی نازل کردہ ہدایات پر ایمان لاتے اور اجتماعی زندگی میں تورات وانجیل کانفاذ کرتے تو دنیا و آخرت کے ثمرات سے سرفراز کیے جاتے۔ اہل کتاب کے جرائم کی وجہ سے ان میں سے کچھ لوگوں کو دنیا میں بندر اور خنزیر بنادیا گیا اور باقی کے درمیان ہمیشہ کے لیے حسد وبغض اور عداوت ودشمنی پیدا کردی گئی۔ اب اس کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں دنگا فساد برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر ایمان لاتے اور اپنے دور میں تورات وانجیل کو اپنے لیے ضابطۂ حیات مقرر کرتے تونہ صرف ان کے گناہ معاف کردیے جاتے۔ بلکہ دنیا میں بھی بابرکت رزق سے مستفید ہوتے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمتوں سے سرفراز فرماتے۔ یہاں دنیا کی فراوانی کے لیے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے اوپر، نیچے سے رزق پاتے یعنی زمین ان کے لیے اپنے خزانے اگلتی اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا جس کی ظاہری شکل بارش کابر وقت ہونا اور لوگوں کا آفاقی آفتوں سے محفوظ رہنا ہے۔ اس کے لیے شرط یہ تھی کہ سچے ایمان کے ساتھ وہ تورات اور انجیل کو اجتماعی زندگی میں بالفعل نافذ کرتے۔ یہی اقامت دین کا مفہوم ہے لیکن انہوں نے انفرادی زندگی میں بداعمالیوں کو اپنا یا اور اجتماعی زندگی میں دین کو کلیتاً خارج کردیا دوسرے لفظوں میں نظام حکومت سے تورات اور انجیل کو نکال کر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کیے۔ یوں ان کی پوری زندگی تورات اور انجیل کے احکامات سے خالی ہوگی۔ جس کے نتیجے میں ان کے کردار سے دیانت وامانت، شرم وحیا اور شرافت ونجابت کا خاتمہ ہوا۔ دنیا کی فراوانی کے باوجود ان سے برکت اٹھالی گئی تاہم ان میں ایسے خوش قسمت بھی ہیں جنہوں نے اعتدال کا رویہ اختیار کرتے ہوئے نہ صرف تورات وانجیل پر عمل کیا بلکہ نبی اکرم (ﷺ) پر ایمان لا کر دونوں جہانوں میں سرخرو ہوئے۔ (عن ابی ہُرَیْرَۃ َ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) حَدٌّ یُعْمَلُ فِی الْأَرْضِ خَیْرٌ لِأَہْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا ثَلَاثِینَ صَبَاحًا)[ رواہ النسائی : کتاب قطع السارق، باب الترغیب فی اقامۃ الحد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کیا کرتے تھے رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا زمین پر ایک حد کا نفاذ اہل دنیا کے لیے تیس دن کی بارش سے بھی بہتر ہے۔“ (یہاں تیس دن کی بارش سے مراد مناسب وقت پر بارشوں کا ہونا ہے۔ ) (حَدَّثَنِی أَبُو بُرْدَۃَ (رض) عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) ثَلاَثَۃٌ لَہُمْ أَجْرَانِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ (ﷺ)۔۔)[ رواہ البخاری : باب تَعْلِیم الرَّجُلِ أَمَتَہُ وَأَہْلَہُ] ” حضرت ابو بردہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں انھوں نے کہا رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے ایک وہ آدمی جس کا تعلق اہل کتاب سے وہ اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد (ﷺ) پر بھی ایمان لایا۔۔“ مسائل : 1۔ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے۔ 2۔ ایمان و تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جنت کا داخلہ عطا فرمائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی وجہ سے رزق میں فراوانی ہوتی ہے۔ 4۔ اہل کتاب کی اکثریت بدعمل ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کے قانون قصاص میں دنیوی فائدے : 1۔ قصاص لینا فرض ہے اور اس میں تمہاری زندگی ہے۔ (البقرۃ:178) 2۔ قصاص میں برابری ضروری ہے۔ (البقرۃ:178) 3۔ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی واپسی اس پر زیادتی کرسکتے ہو۔ (البقرۃ:194) 4۔ بدلہ لینا ضروری ہے جو معاف کردے یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ (المائدۃ:45) 5۔ دیت قبول کرنے کے بعد زیادتی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:178)