وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقیناً جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہودیوں کے علماء کا کردار اور عوام کی اصلاح سے عدم التفات کی وجہ سے ان کے عوام پر لے درجے کے گستاخ ہوچکے ہیں۔ یہودی زبان درازی اور شقاوت قلبی کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مطلب براری کے لیے انتہائی لجاجت اور میٹھی زبان کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جونہی مطلب نکل جائے تو اپنا خبث باطن ظاہر کرنے اور دوسرے کو زیر کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ ان کی گستاخیوں کا سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں قدرے ذکر ہوا ہے۔ یہ نہ صرف انبیاء کے گستاخ اور قاتل ہیں بلکہ مشکل وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ جونہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رزق کی کشادگی سے نوازا اور یہودیوں کی تجارت اور کاروبار محدود ہوا تو انہوں نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے برملا اس گستاخی کا اظہار کیا کہ ہمارے رزق میں کمی اور تجارت میں اس لیے خسارہ ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ بند کرلیے ہیں خاکم بدہن بقول ان کے اللہ تعالیٰ کنجوس اور بخیل ہوگیا، ان کے جواب میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہیں اور وہ ہر وقت مخلوق کو اپنی عطاؤں سے نواز رہا ہے اگر وہ اپنے جود وکرم کا ہاتھ ایک لمحہ کے لیے بند کرلے تو دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے اس میں اس کی حکمت کار فرما ہے اور اکثر اوقات انسان کی اپنی کمی کمزوری کا دخل ہوتا ہے۔ جہاں تک یہودیوں کی فطرت کا معاملہ ہے یہودی بظاہر کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو وہ پرلے درجے کا کنجوس اور اس کی سیاست اور کاروباری معاملات پر لوگ لعنت ہی کیا کرتے ہیں۔ اسی کا سبب ہے کہ یہ قرآن مجید سے خاص عداوت رکھتے ہیں اس کے ساتھ ہی یہود ونصاریٰ آپس میں خاص کر یہودیوں کے درمیان بے انتہا اختلافات ہیں۔ ایک مذہب پر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی لعنت کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی حسد اور بغض رکھتے ہیں اور دنیا میں جس قدر جنگ وجدال ہوتا ہے اس میں کسی نہ کسی صورت میں یہودیوں کا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں نبی کریم (ﷺ) کو یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ ان کی خباثتوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ جب آپ کو کسی سازش اور لڑائی میں جھونکنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کو اس آگ سے بچالے گا لیکن اس کے باوجود یہ دنیا میں لڑائی اور فساد کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ یہودیوں کی سازشوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آج بھی مسلمان رسول اکرم (ﷺ) کے بتلائے ہوئے طریقہ کو اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی یہودیوں کی سازشوں سے محفوظ کرے گا۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط نظریہ رکھنے کی وجہ سے یہود پر لعنت وپھٹکار ہوئی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہیں رزق عطا کرتا ہے۔ 3۔ قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد اہل کتاب کی کفروسرکشی میں اضافہ ہوگیا۔ 4۔ اہل کتاب میں سے اکثر فساد کرانے میں لگے رہتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔