إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 55 سے 56) ربط کلام : مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کی باہمی محبت کے ذریعے تسلی دی جارہی ہے۔ خطاب کے آغاز اور رکوع کی ابتدا میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ جس میں یہ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو تنہا محسوس کریں۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں غیروں سے دوستی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ محبت کرتے ہیں کیونکہ تم اللہ ہی کے لیے دین کے دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کے حضور نماز کی حالت میں جھکنے والے اور اس کی رضا کی خاطر زکوٰۃ کی شکل میں غرباء سے تعاون کرنے والے رکوع کرتے ہوئے عاجزی اختیار کرنے والے ہو۔ گویا کہ جب تک مسلمانوں میں یہ اوصاف ہوں گے کہ وہ اللہ کے حضور نماز کی صورت میں جھکنے والے، زکوٰۃ کی شکل میں کمزور ساتھیوں سے تعاون کرنے والے، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اور آپس میں محبت کرنے والے ہوں گے۔ تو انہیں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے یہ اللہ کی فوج ہیں اور اللہ کی فوج ہی دنیا میں غالب رہے گی۔ چنانچہ دنیا نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا جب تک مسلمانوں میں یہ اوصاف رہے مسلمان سربلند رہے۔ یہاں رکوع سے مراد اکثر مفسرین نے عاجزی اور انکساری لی ہے تاہم یہ سورۃ ا لبقرۃ میں ذکر ہوچکا ہے کہ نماز کے ساتھ رکوع کا خصوصی ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہودیوں نے رکوع فرض ہونے کے باوجود اپنی نماز سے خارج کردیا ہے یہاں کفار اور منافقوں کو متنبہ کرنے کے ساتھ مومنوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ تمہیں غیروں سے دوستی اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کامیابی تمہارا مقدر ہے۔ (الاسلام یعلوولا یعلیٰ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر :1268] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ ﴿کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ﴾ [ المجادلۃ:21] ” اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوا أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَۃَ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ ) [ رواہ البخاری : باب ﴿فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیلَہُمْ﴾] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مجھے لوگوں کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے جب انھوں نے یہ کام کرلیا تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کرلیا مگر اسلام کے حقوق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“ مسائل : 1۔ مومن اللہ اور اس کے رسول کے دوست ہوتے ہیں۔ 2۔ مومن نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے اور اللہ کے سامنے رکوع کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرنے والے غالب رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ کن کا دوست ہے : 1۔ اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ (البقرۃ:257) 2۔ اللہ مومنین کا دوست ہے۔ (آل عمران :68) 3۔ اللہ متقین کا دوست ہے۔ (الجاثیۃ :19) 4۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ (المائدۃ:55) 5۔ مشرک اور اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلانے والوں کا کوئی دوست نہیں۔ (العنکبوت :23) 6۔ مسلمانوں کے لیے جنت اور اللہ تعالیٰ کی دوستی ہوگی۔ (الانعام :126)