وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی تھی کہ بلاشبہ وہ یقیناً تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال ضائع ہوگئے، پس وہ خسارہ اٹھانے والے ہوگئے۔
فہم القرآن : ربط کلام : مومنوں کا منافقین پر تعجب کا اظہار اور منافقین کے اعمال کا غارت ہونا۔ اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کو کامیاب ہونے کی خوشخبری سنانے کے ساتھ اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا کہ مسلمان کامیاب اور منافق اپنی سازشوں اور شرارتوں پر نادم ہوں گے اور اس وقت مسلمان انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے کیا یہی وہ لوگ تھے جو قسمیں اٹھا اٹھا کر ہمیں یقین دہانی کرایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی منافقوں کو شرمندہ کیا اور آخرت میں جب منافق جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو مومن ان سے یہ پوچھیں گے کیا تم وہی لوگ ہو جو دنیا میں حلف اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم بھی ایماندار اور تمہارے ساتھی ہیں۔ دنیا میں منافقوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں ذلت سے دو چار ہوں گے۔ ان کے تمام اعمال بے فائدہ اور غارت ہوجائیں گے اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص پر ہے۔ منافق اخلاص سے تہی دامن ہوتا ہے جس وجہ سے نہ صرف آخرت میں یہ لوگ نقصان اٹھائیں گے بلکہ دنیا میں بھی ان کی منافقت کا پردہ چاک ہوجائے گا۔ ان کی حالت اس جانور کی ہوگی جس کے بارے میں محاورہ زبان زد عام ہے کہ نہ گھر کا اور نہ گھاٹ کا، منافق ایسی صورت حال سے دو چار ہوا کرتا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَر َ عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین واحکامھم] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکرے کی تلاش میں پھرنے والی بکری کی طرح ہے۔ ایک مرتبہ اس جانب جاتی اور دوسری مرتبہ دوسری جانب جاتی ہے۔“