وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے اس میں ان پر لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان ہے اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں میں برابر بدلہ ہے، پھر جو اس (قصاص) کا صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جو اس کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، یہاں تورات میں جو حدود و قصاص کے احکامات کی تفصیل بیان فرمائی ہے انجیل کا اس لیے ذکر نہیں کہ انجیل تورات ہی کا تتمّہ ہے۔ پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن احکامات کا تورات میں ذکر ہے اگر وہ قرآن مجید میں من و عن یا ان کا جو حصہ قرآن مجید میں بطور نفاذ ذکر کیا گیا ہو تو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ یہاں تو رات اور قرآن مجید کی متفق علیہ حدود کا ذکر کرنے سے پہلے نصیحت کی گئی کہ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے صرف اللہ سے ڈرا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو دنیاوی مفادات کے لالچ میں آکر ہرگز نہ چھوڑو کیونکہ ان کانفاذ اللہ تعالیٰ نے سب پر فرض قرار دیا ہے۔ ” ھم“ کی ضمیر بظاہر تو یہود و نصاریٰ کی طرف ہے لیکن نبی (ﷺ) نے ان پر عمل پیرا ہونا امت کے لیے لازم قرار دیا ہے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان حدود کو عملاً نافذ فرمایا کیونکہ جو حاکم جان بوجھ کر ان پر عمل نہیں کرتا۔ وہ کافر، ظالم اور فاسق یعنی کسی ایک زمرے میں ضرور شامل ہوگا۔ البتہ اس بات کی پوری گنجائش رکھی گئی ہے کہ فوجداری مقدمات عدالت میں آنے سے پہلے مجروح یا مقتول کے وارث معاف کردیں تو یہ معافی ظالم کے لیے اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔ اگر معافی کی صورت نہ نکلے تو حاکم کا فرض ہے کہ قصاص دلوائے اگر ایسا نہ کیا جائے تو حاکم ظالموں میں شمار ہوں گے۔ کیونکہ ان کی وجہ سے مظلوم اپنے حق سے محروم ہوا اور معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَسَرَتْ الرُّبَیِّعُ وَہْیَ عَمَّۃُ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ثَنِیَّۃَ جَارِیَۃٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَطَلَبَ الْقَوْمُ الْقِصَاصَ فَأَتَوْا النَّبِیَّ (ﷺ) فَأَمَرَ النَّبِیُّ (ﷺ) بِالْقِصَاصِ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ لَا وَاللّٰہِ لَاتُکْسَرُ سِنُّہَا یَا رَسُول اللّٰہِ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَا أَنَسُ کِتَاب اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَرَضِیَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الْأَرْشَ فَقَالَ رَسُولُ (ﷺ) إِنَّ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ)[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ والجروح قصاص] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں حضرت انس بن مالک کی چچی نے انصار کی ایک بچی کا دانت توڑ دیا تو انھوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور نبی کریم (ﷺ) کے پاس آئے نبی (ﷺ) نے قصاص کا حکم دیا۔ انس بن نضر (رض) جو کہ انس بن مالک کے چچا ہیں۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اے انس قصاص اللہ کا حکم ہے اچانک قوم دیت لینے پر راضی ہوگئی تو رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں اگر قسم اٹھالیں تو اللہ اس کو بری کردیتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) حَدٌّ یُعْمَلُ فِی الأَرْضِ خَیْرٌ لأَہْلِ الأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا ثلاَثِینَ صَبَاحًا )[ رواہ النسائی : باب التَّرْغِیبِ فِی إِقَامَۃِ الْحَدِّ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا زمین میں اللہ کی ایک حد پر عمل کرنا زمین والوں کے لیے تیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ مسائل : 1۔ تورات کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ 2۔ تورات میں ہدایت اور روشنی ہے۔ 3۔ انبیاء (علیہ السلام) کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ 4۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ 5۔ کتاب اللہ کا حکم نہ ماننے والے کافر، ظالم، فاسق ہیں۔ 6۔ یہودیوں پر بھی قصاص فرض تھا۔ تفسیر بالقرآن : نفاذ دین کی فرضیت : 1۔ جو شخص اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ (المائدۃ:44) 2۔ جو شخص اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔ (المائدۃ:47)