سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت کھانے والے حرام کو، پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب جھوٹ سننا اور حرام کھاناکسی فرد یا قوم کی عادت ہوجائے تو پھر اس کی اصلاح کے تمام راستے مسددد ہوجایا کرتے ہیں کیونکہ صالح کردار کے لیے اکل حلال اور صدق مقال شرط ہے۔ جھوٹ بولنے اور حرام کھانے میں کوئی قوم یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی بعض مفسرین نے ﴿سُحْتَ﴾ کا معنٰی رشوت خوری بھی کیا ہے۔ رشوت کا لین دین ہو یا حرام خوری کا معاملہ یہودی اس سلسلہ میں ہمیشہ سرفہرست دکھائی دیں گے۔ یہاں مفسرین نے اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے خیبر میں ہونے والی بدکاری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خیبر کے کھاتے پیتے گھرانے کے ایک مرد اور عورت سے سرزدہوئی یہودیوں کے ہاں زنا کی سزا وہی تھی جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی بدنامی سے بچنے اور تورات کی حد سے اجتناب اختیار کرنے کے لیے یہ مقدمہ نبی (ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا آپ نے یہودیوں سے سوال کیا کہ تورات میں اس کی کیا سزا بیان ہوئی ہے ؟ انھوں نے کہا ہمارے ہاں ایسے مجرم کی سزا یہ ہے کہ اس کا منہ کالا کرکے الٹے منہ گدھے پر بٹھایا جائے آپ (ﷺ) نے فرمایا ہرگز نہیں تورات میں بھی اس جرم کی وہی سزا ہے۔ جو قرآن مجید میں ہے اس وضاحت کے باوجود یہودیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ تب آپ نے یہودیوں کے ایک جید عالم کو بلا کر اسے فرمایا کہ تجھے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی یہ سنتے ہی یہودی عالم نے اقرار کیا کہ واقعی اس معاملہ میں تورات اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ تب عورت اور مرد کو سنگسار کردیا گیا۔ اس فرمان میں آپ کو یہ اختیار دیا گیا ہے اگر یہودی آپ کے پاس کوئی مقدمہ پیش کریں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ اس کی سماعت سے انکار کریں یا فیصلہ صادر فرمائیں۔ انکار کی صورت میں یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ فیصلہ کرنے کی صورت میں آپ تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عدل و قسط کے ساتھ فیصلہ کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اہل علم نے یہاں اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ مسلمانوں کا عہد ہو تو اس صورت میں قاضی کو مقدمہ سننے یا انکار کرنے کا مکمل اختیار ہے اگر مقدمہ پیش کرنے والے اسلامی مملکت کی رعایا ہوں تو پھر عائلی قوانین کے علاوہ دیگر مقدمات کو سننا اور اس کا فیصلہ دینا اسلامی عدالت کا فرض ہے۔ یاد رکھیے کہ یہودی کس طرح آپ کو فیصل تسلیم کریں گے کیونکہ جو حکم آپ نے دینا ہے وہ تو تورات میں بھی موجود ہے۔ جس سے یہ انحراف کرتے ہیں۔ یہ خلوص نیت کے ساتھ آپ کے پاس نہیں آتے۔ اگر کسی سماجی مجبوری کی وجہ سے آپ کے پاس آبھی جائیں تو وہ آپ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کسی آسمانی کتاب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسائل : 1۔ یہودی جھوٹ پسند کرنے والے اور سود خور ہیں۔ 2۔ فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ 3۔ نبی اکرم (ﷺ) کو یہودیوں کا فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ 5۔ یہودی نبی اکرم (ﷺ) کو فیصل نہیں مانتے۔