وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ آیات میں ڈاکہ اور رہزنی کی سزا بیان کی گئی تھی درمیان میں حسب دستور نصیحت اور تنبیہ کی گئی۔ اب چور کی سزا بیان ہوتی ہے۔ ہر قوم اور معاشرے میں طاقت اور قوت کے زور پر مال لوٹنے والے کو ڈاکو اور چھپ کر کوئی چیز اٹھانے والے کو چور کہا جاتا ہے۔ اس لیے اہل لغت اور شارحین نے چوری کی یہ تعریف کی ہے ” ایسا مال جس کو حفاظت میں رکھا گیا ہو اسے ہتھیانے والے کو چورکہیں گے ایسے شخص پر چوری کی سزا نافذ کی جائے گی“ پہلی دفعہ چوری کرنے والے سے مال وصول کرتے ہوئے اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر دوسری دفعہ چوری کرتا ہے۔ تو اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا۔ بعض لوگ غیر مسلموں کے پروپیگنڈہ میں آکر اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کو غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو مہذب سمجھنے کے باوجود مظلوم کی خیر خواہی کرنے کی بجائے ڈاکو، چور اور بدکار لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جو اخلاق، دین اور معاشرتی آداب کے کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن مجید جرائم کی بیخ کنی کے لیے سنگین جرائم کی نہ صرف سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے۔ بلکہ اس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سر عام سزا دی جائے گی۔ اس آیت میں لفظ ” نکالاً“ کا یہی مفہوم ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَعْنَ اللّٰہُ السَّارِقْ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب لعن السارق اذا لم یسم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ چور پر لعنت کرے ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔“ مسائل : 1۔ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ 2۔ عبرت کے لیے یہ ان کی دنیا میں سزا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سزا کی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔