إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، اگر واقعی ان کے پاس زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو، تاکہ وہ اس کے ساتھ قیامت کے دن کے عذاب سے فدیہ دے دیں تو ان سے قبول نہ کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
فہم القرآن : (آیت 36 سے 37) ربط کلام : اے لوگو! فساد فی الارض میں صلاحیتیں ضائع کرنے اور اللہ سے دوری اختیار کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی قوتیں صرف کرو تاکہ تمہیں اللہ کا قرب اور کامیابی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے منکر نہ صرف اس کے قرب سے محروم ہوں گے بلکہ انھیں جہنم میں پھینکا جائے گا جس سے ان کے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جو لوگ نیک اعمال کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے اور پانے کی بجائے یہود و نصاریٰ کا رویہ اختیار کرتے اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں فلاح اور کامیابی کے راستے پر چلنے کی بجائے بغاوت اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں انھیں قیامت کے دن جہنم میں جھونکا جائے گا۔ جس سے نکلنے کے لیے آہ و زاریاں کریں گے لیکن ان کی فریاد اور کوئی وسیلہ کام نہیں آئے گا۔ جو دنیا میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ہم فلاں فلاں کی و جہ سے دنیا کی عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور قیامت کے دن بھی بزرگ اور بڑے ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے وہ اپنی نجات کے لیے سب کچھ پیش کرنے کی درخواست کریں گے باوجود اس کے کہ ان کے پاس نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن پھر بھی ایسی پیشکشیں کریں گے۔ ان سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنم کی آگ سے نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن نکل نہیں پائیں گے۔ انھیں ہمیشہ وہاں رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) ضِرْسُ الْکَافِرِ أَوْ نَابُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِہٖ مَسِیرَۃُ ثَلَاثٍ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ ونعیمھا، باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جہنم میں کافر کا دانت احد پہاڑ جتنا ہوگا اور اس کی جلد کی موٹائی تین دن کی مسافت جتنی ہوگی۔“ ﴿وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآءَ کُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوْا فَمَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ﴾[ فاطر :37] ” اور وہ چیخ چیخ کر کہیں گے : ہمارے رب! ہمیں (اس سے) نکال کہ ہم نیک عمل کریں ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے (اللہ فرمائے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کوئی نصیحت حا صل کرنا چاہتا توکر سکتا تھا ؟ تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا اب عذاب کو چکھو یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ مسائل : 1۔ مجرموں سے زمین اور اس کے برابر فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ مجرم جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔ 3۔ مجرموں کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والا اور ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن کوئی معاوضہ نہیں قبول ہوگا : 1۔ قیامت کے دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ:48) 2۔ قیامت کو مجرم زمین بھر سونا کر دے تب بھی قبول نہیں ہوگا۔ (آل عمران :91) 3۔ مجرم خواہش کرے گا کہ میں جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ معاوضہ دے کر بچ جاؤں۔ (المعارج : 11تا14) 4۔ کوئی معاوضہ اس دن قبول نہیں کیا جائے گا۔ (المائدۃ:36)