يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔
فہم القرآن : ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی طرح خدا کی نافرمانی اور اس سے دور ہونے کی بجائے اس کی قربت تلاش کرو۔ زمین میں دنگا فساد کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی قوت و طاقت استعمال کرو اس طرح تم کامیاب ہو گے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (ﷺ) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہو کر امت کی سفارش کریں گے اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بے سہارا کو سہارا دینا اور بے وسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ توہین آمیز اور مضحکہ خیزمثال : لیکن آج کا خطیب وسیلے کے جواز کے لیے یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ پھر ایک دوسرے کی مدد کرنا ٗگاڑی استعمال کرنا اور عینک لگانا بھی شرک ہے۔ وہ جانتے ہوئے اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ دنیا کے معاملات میں اسباب اختیار کرنے کا شریعت میں حکم ہے۔ واعظ کا یہ بھی فرمان ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اور افسر کو ملنے کے لیے کسی سفارش کا ہونا ضروری ہے۔ ذرا سوچئے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ اوپر سے نیچے نہیں آسکتی اور نہ ہی آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی افسر توانسان ہے جب تک اسے معاملہ بتلایا نہ جائے۔ وہ نہیں جان سکتا یہاں تک کہ اس کے لیے سفارش ڈھونڈنے کا تعلق ہے وہ بھی ایک طرح کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے۔ اس کی قدرت وسطوت تو ہر جگہ موجود ہے وہ دلوں کی دھڑکنوں کو جانتا ہے یہاں تو و سیلے و سفارش اور سیڑھی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آدمی کو کسی اعتبار سے بھی اس ذات کبریا کو اپنے آپ پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو چھت اور انسان کے ساتھ مشابہ قرار دینا ناقابل معافی گناہ ہی نہیں بلکہ ذات کبریا کی شان میں پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ وسیلہ کی گنجائش ہی نہیں : ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾[ ق :16] ” اور بلاشبہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں اس کا نفس جو وسوسے ڈالتا ہے اور ہم اس سے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ ﴿اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ﴾ [ الملک :13]” بے شک وہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ سینوں میں ہے۔“ ذات کبریا کا احترام کرو : ﴿فَلاَ تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ﴾[ النحل :74]” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو۔“ ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ﴾[ الزمر :67] ” اور نہ قدر پہچانی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جس طرح قدر پہچاننے کا حق تھا۔“ اس عقیدہ کے اخلاقی اور دینی نقصانات : * انسان خود نیکی کرنے کی بجائے دوسرے کی نیکی پر بھروسہ کرتا ہے۔ * انسان توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے بجائے پہلے کی طرح دور رہتا ہے۔ * وسیلہ کی آڑ میں جعلی پیر لوگوں کی عزت اور مال لوٹتے ہیں۔ * اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں وسیلہ اور واسطے کو پسند نہیں کرتا۔ * وسیلہ کے عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ * یہ طریقہ ہندوؤں اور غیر مسلموں کے مشابہ ہے۔ اخلاص اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے : 1۔ فوت ہونے والے بزرگ بیمار ہوئے، ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے۔ 2۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ و بکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ 3۔ شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود اپنے آپ استنجا کرسکے نہ غسل۔ 5۔ زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی اپنے پاؤں پر چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ 5۔ جو زندگی میں صرف پنجابی یا کوئی ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد قبر پر آنے والوں اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے ؟ 6۔ جو خوداولاد سے محروم تھے دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ 7۔ جو خراٹے لینے والی نیند یا کسی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے اب موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے؟ 8۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ 9۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ 10۔ جو زندگی میں بیک وقت ایک یا دو‘ تین آدمیوں سے زیادہ کی بات سن اور سمجھ نہیں سکتے تھے اب بیک وقت سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کی فریاد کس طرح سن سکتے ہیں؟ وسیلے تو خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں : ﴿یَٓایُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَإِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ﴾ [ الحج :73] ” اے لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے پس غور سے سنو اسے! بے شک جن معبودوں کو تم پکارتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ تو مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب جمع ہوجائیں اس (معمولی سے) کام کے لیے اور اگر چھین لے ان سے مکھی بھی کوئی چیز تو وہ نہیں چھڑا سکتے اسے اس مکھی سے (آہ!) کتنا بے بس ہے ایسا طالب اور کتنا بے بس ہے ایسا مطلوب۔“ (تفسیر ضیاء القرآن) اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کو وسیلہ بنائیں : سمع اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مسلم اللہ تعالیٰ کے حضور وہی واسطہ اور وسیلہ پیش کرے جس کی ذات کبریا نے اجازت دے رکھی ہے۔ ایک احمق ترین شخص بھی جان بوجھ کر یہ حرکت نہیں کرسکتا کہ جس سے وہ کچھ مانگنا چاہتا ہے وہ اپنے محسن کے سامنے ایسا طریقہ اختیار کرے کہ جس سے وہ عطا کرنا تو درکنار الٹا ناراض ہوجائے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کے اسمائے مبارکہ اور صفات مقدسہ کو وسیلہ بنایا جائے۔ سرور دو عالم (ﷺ) کسی شخصیت کے واسطے‘ حرمت‘ صدقے اور طفیل کی بجائے اللہ کی صفات کے واسطے سے دعا کیا کرتے تھے۔ ﴿وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا﴾ [ الأعراف :18] ” اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی خوبصورت نام ہیں انہی ناموں سے دعا کیا کرو۔“ (اَللّٰہُمَ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ذُوْالْجَلاَلِ وَالإِْکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِی لاَ تَرَامُ أَسْأَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُوْرِ وَجْہِکَ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء الحفظ ] ” اے زمین و آسمان کو ابتداء سے پیدا کرنے والے‘ اے ذوالجلال والاکرام تیری عزت کو پانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اے اللہ‘ اے رحمٰن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے جمال کے واسطے سے ہم تجھ سے مانگتے ہیں۔“ (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الاداب، باب فضل الحامدین] ” اے اللہ ! تیرے لیے تمام تعریفات ہیں جس طرح تیرے چہرے کی جلالت اور عظیم با دشاہی کے لائق ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِی الْوَسِیلَۃَ فَإِنَّہَا مَنْزِلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَۃَ حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب اسْتِحْبَابِ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ انہوں نے نبی مکرم (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا جب تم مؤذن کی اذان سنوتو اس کے ساتھ وہی کلمات دہراتے چلے جاؤ پھر مجھ پر درود پڑھو۔ اذان کے بعد جس نے مجھ پر درود پڑھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کے بعد میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بلاشبہ وہ جنت کا بلند ترین مقام ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو نصیب ہوگا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہی وہ عطا کرے گا۔ جس مسلمان نے میرے لیے اس مقام کی دعا کی میری سفارش اس پر واجب ہوگی۔“ مسائل : 1۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہیے۔ 4۔ کافر زمین و آسمان کے خزانے خرچ کرکے بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے 5۔ کفار کے لیے المناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : وسیلہ کی حیثیت : 1۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرواس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ (المائدۃ:35) 2۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ (الاسراء :57) 3۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے۔ (البقرۃ:186) 4۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق :16)