إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : ظلم واستبداد کو روکنے کے لیے ابتدا ہی سے فوج داری ضابطے نازل فرمائے گئے تاکہ ظالم دنیا ہی میں سزا پائیں اور آئندہ ایسے مظالم سے باز آجائیں۔ اسلام نے قتل انسان کو بڑا سنگین جرم قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود لوگ انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے درندوں کے لیے اسلام سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے تاکہ امن و امان قائم اور چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی ہو سکے۔ اگر کسی ملک میں شاہراہیں غیر محفوظ اور لوگوں کی آمد و رفت پر خطربنا دی جائے تو اسلام ایسی صورت حال کو لمحہ بھر کے لیے بھی برداشت نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں سے نمٹنے کے لیے اسلام سخت ترین کارروائی کا حکم دیتا ہے۔ اور اس صورت حال کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف تصوّر کرتا ہے ان خطرناک اور پیشہ ور ظالموں کے قلع قمع کے لیے حکم صادر فرمایا کہ ایسے لوگوں کو چار سزاؤں میں سے حسب جرم کوئی ایک سزا سرعام دینا چاہیے۔ تاکہ یہ لوگ دنیا میں عبرت کا نشان ثابت ہوں۔ اور آخرت میں انھیں عذاب عظیم سے دو چار ہونا پڑے گا۔ (1) قتل کردیا جائے۔ (2) تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔ (3) مخالف سمت میں ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں۔ (4) ملک بدر کردیا جائے۔ مفسرین نے ان سزاؤں کی تنفیذ کا ذکر کرتے ہوئے تشریح کی کہ یہ اسلامی عدالت کے اختیار میں ہوگا کہ وہ موقعۂ واردات اور جرم کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایک سزا تجویز کرے۔ جہاں تک ملک بدر کردینے کی سزا کا تعلق ہے حضرت عمر (رض) ایسے مجرموں کو جیل میں بند کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان لوگوں سے عوام الناس مامون ہوجاتے تھے۔ ” حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے انہیں بتایا کہ ” عکل اور عرینہ (قبیلوں) کے کچھ لوگ نبی اکرم (ﷺ) کے پاس مدینہ میں آئے اور کلمہ پڑھنے لگے۔ انھوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ! ہم بھیڑ بکریاں چرانے والے لوگ ہیں کسان نہیں۔ انھیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ آپ (ﷺ) نے چند اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کیا اور کہا کہ تم لوگ (جنگل میں) چلے جاؤ۔ ان اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہو۔ وہ حرہ کے پاس اقامت پذیر ہوئے اور اس علاج سے وہ خوب موٹے تازے ہوگئے۔ پھر ان کی نیت میں فتور آگیا اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ آپ (ﷺ) کے چرواہے (یسار) کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر اسے کئی طرح کی تکلیفیں پہنچا کر مار ڈالا اور اونٹ بھگا کر چلتے بنے۔ آپ (ﷺ) کو اطلاع ہوئی تو آپ (ﷺ) نے انھیں گرفتار کرنے کے لیے آدمی روانہ کیے۔ جب وہ گرفتار ہو کر آئے تو آپ (ﷺ) کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور حرہ کے ایک کونے میں پھینک دیے گئے۔ وہ اسی حال میں مر گئے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب قصۃ عکل وعرینہ] مسائل : 1۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے لڑائی کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کو قتل کردینا چاہیے۔ 2۔ تخریب کار کو سولی پر لٹکا دینا چاہیے۔ 3۔ ڈاکوکے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے چاہییں۔ 4۔ تخریب کار کو ملک بدر کردینا چاہیے۔ 5۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ لڑائی کرنے والے دنیا و آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : فساد کرنے والوں کی سزا : 1۔ زمین میں فساد نہیں کرنا چاہیے۔ (الاعراف :56) 2۔ اللہ فساد کرنے والوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔ (یونس :81) 3۔ فساد کی کوشش نہ کرو کیونکہ اللہ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص :77) 4۔ خشکی و تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد پھیلتا ہے۔ (الروم :41) 5۔ فساد کرنے والوں کا انجام۔ (النمل :14) 6۔ زمین میں فساد کی غرض سے نہ چلو۔ (البقرۃ:60) 7۔ اللہ فساد کرنے والوں کو جانتا ہے۔ (آل عمران :63) 8۔ فساد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الرعد :25)