فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
تو اس کے لیے اس کے نفس نے اس کے بھائی کا قتل پسندیدہ بنا دیا، سو اس نے اسے قتل کردیا، پس خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ 1۔ نفس مطمئنہّ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر :27) 2۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس (القیامۃ:2) 3۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس (یوسف :53) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (1) نفس امارہ اور نفس لوامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ جب نفس امارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ﴿فطوعت لہ نفسہ﴾ سے یہی کشمکش مراد ہے۔ چنانچہ قابیل نے وہی کیا جس کا وہ اعلان کرچکا تھا۔ قتل کرنے کے بعد اس کے دل کا سکون جاتا رہا۔ رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی، ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی۔ آخرت میں جہنم کا ایندھن اور ظالموں کا ساتھی بنا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے اور جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے اسے ایسی ہی کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان اور برائی میں پریشانی و پشیمانی ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْہَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ مِنْ دَمِہَا لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ، بَاب إِثْمِ مَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَۃٍ أَوْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر ہر ظلم کے ساتھ قتل کیے جانے والے کے گناہ کا حصہ ہے اور شاید سفیان نے خون کا لفظ بولا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کرنے کی بنیاد رکھی۔“