قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ
انھوں نے کہا اے موسیٰ ! بے شک ہم ہرگز اس میں کبھی داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں، سو تو اور تیرا رب جاؤ، پس دونوں لڑو، بے شک ہم یہیں بیٹھنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 24 سے 26) ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء : جب نا ہنجار اور نافرمان قوم نے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کا انکار کیا بلکہ پرلے درجے کی گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تو اور تیرا رب جاکرقتال کریں۔ غور فرمائیں، جس قوم کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بے شمار مصائب وآلام برداشت کیے اور جس کے لیے اتنی جدوجہد کی کہ اس کا جواب کتنا گستاخانہ اور بزدلانہ ہے۔ یہ سن کر جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ لیکن اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کچھ کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فریاد کی کہ الٰہی ! میں اپنی اور اپنے بھائی کی ذمہ داری لیتا ہوں جس کا یہ معنی ہے کہ ہم تو تیری راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں اگر یہ نافرمان اپنے فائدے کی خاطر بھی تیرے راستے میں لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بس تو ہمارے اور ان کے درمیان علیحدگی فرما دیجیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ارض مقدس کو حرام کیا اور انھیں چالیس سال تک تیہ کے صحرا میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا اور ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ آپ کو نافرمان قوم پر افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ کچھ مدت کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوئے۔ ان کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے لیکن اس وقت بھی انھوں نے بغاوت کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر گزر چکا ہے۔ جغرافیہ دانوں نے اس صحرا کا رقبہ 27فرسخ طول اور 9فرسخ عرض بیان کیا جس کا مطلب ہے کہ یہ صحرا 90میل لمبا اور 27میل چوڑا ہے جس میں تقریباً 70لاکھ کے قریب بنی اسرائیل مقید کیے گئے جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ صبح سے شام تک اس کو شش میں سرگرداں رہتے کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائیں لیکن مغرب کے وقت اسی مقام پر ہوتے جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا ہوتا تھا گویا کہ وہ بغیر کسی دیوار اور بیڑیوں کے اللہ تعالیٰ کی جیل میں جکڑ دیے گئے تھے تاہم اس دوران انھیں صبح و شام کھانے کے لیے من اور سلویٰ دیا جاتا اور پینے کے بارہ چشموں کا انتظام اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے بادلوں کا سا یہ کیا گیا۔ یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی بحر احمر (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد، شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی وسیاسی مقاصد کے لیے زیادہ سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے مگر تبا (Taba) میں سبا ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقع ہے (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیوویبا (N (علیہ السلام) weba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel sheikh) واقع ہیں سینائی العریش ( I Arishel) یں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر واقع ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ کے رسول کے حکم کو نہ ماننے والے فاسق ہیں۔ 2۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے رسوا ہوتے ہیں۔ 3۔ مغضوب قوم کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ 4۔ نافرمان لوگوں پر عذاب نازل ہو تو افسوس نہیں کرنا چاہیے۔